پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو ووٹ ڈالنے کا حق کیوں نہیں؟
فریداللہ خان، پشاور
18 اکتوبر 2018
پاکستان میں چودہ لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور قریب اتنے ہی غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں، تاہم یہ افغان شہری اپنے ملک میں ہونے والے انتخابات میں رائے دینے سے محروم ہیں۔
اشتہار
افغان حکومت نے پاکستان میں رہائش پذیر مہاجرین کے لیے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد رواں ماہ کے دوران ہونے والے پارلیمانی انتخبات میں ووٹ ڈالنے کے خواہش مند تو ہے، تاہم وہ ووٹ ڈالنے کے لیے افغانستان جانا نہیں چاہتے جس کی بنیادی وجوہات میں افغانستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور دونوں ممالک کے مابین کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان واپسی میں ممکنہ مشکل کا خوف شامل ہیں۔
پاکستان، باالخصو ص خیبر پختونخوا میں قیام پذیر افغان مہاجرین افغان سیاستدانوں سے ناراض اور مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین دیگر ممالک میں آباد ہیں جنہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد حکمران انہیں بھول جاتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے پشاور میں کاروبار کرنے والے ایک افغان مہاجر درویش افغان سے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں تیس لاکھ افغان رہائش پذیر ہیں یہ لوگ یہاں اپنی خوشی سے یہاں نہیں آئے، بلکہ انتہائی مجبوری کے عالم میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اگر انہیں افغان پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جاتا تو ہم کم از کم ایسے لوگوں کو منتخب کرانے میں اپنا کردار ادا کرتے جو چار دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے اور افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے اقدامات کرتے۔‘‘ درویش کا مزید کہنا تھا ''افغانستان میں صبح شام بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے ہیں، ایسے حالات میں کون زندگی داؤ پر لگا کر ووٹ ڈالنے جائے گا۔‘‘ انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ بیرون ملک مقیم افغان مہاجرین کو ووٹ کا حق نہ دیے جانے کی صورت میں افغانستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
پشاور میں مقیم افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں ہونے والے انتخابات سے لاعلم ہے۔ ان مہاجرین کی اکثریت پاکستان ہی میں پیدا ہوئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اب تک انہوں نے افغانستان میں کسی کو ووٹ نہیں دیا اور نہ ہی کسی سیاسی رہنما نے کبھی ان سے رابطہ کیا ہے۔
پشاور میں ڈرائی فروٹ فروخت کرنے والے افغان مہاجر بصیر احمد کا کہنا تھا،’’میں پشاور میں پیدا ہوا ہوں، گذشتہ پچیس سال سے ہمارے خاندان میں نہ کسی نے ووٹ دیا اور نہ ہی مجھے کوئی اندازہ ہے کہ ووٹ کیا ہے اور اس سے ہو گیا کیا۔ لیکن خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت آئے جو ملک میں امن قائم کر سکے۔ افغان حکومت کے پاکستان کے ساتھ رویے کی وجہ سے ہمیں یہاں بعض اوقات مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن افغان حکمرانوں کو یہ احساس تک نہیں کہ پاکستان نے ان کے لاکھوں باشندوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔‘‘
افغان الیکشن کمیشن کے مطابق افغانستان میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نوے لاکھ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان میں خواتین کی تعداد سوا تین لاکھ کے قریب ہے۔ افغان پارلیمان کی دو سو انچاس نشستوں میں 68 نشستیں خواتین کے لیے مختص ہیں۔ طالبان نے الیکشن کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے جس کی وجہ سے افغان عوام انتخابی عمل میں حصہ لینے سے خوفزدہ بھی ہیں۔
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے میں پشاور میں مقیم افغان امور کے ماہر شمیم شاہد سے رابطہ بھی کیا۔ ایک سوال کے جواب میں شاہد کا کہنا تھا، ’’افغان الیکشن کے لیے پشاور اور کوئٹہ میں انتظامات ہوسکتے تھے۔ لیکن افغان حکومت کے پاس وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ وہ یہاں کے لوگوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا انتظام کرسکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا ''اگر افغان حکومت بین الااقوامی برادری کے تعاون سے پاکستان میں بسنے والے اپنے شہریوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو جاتی، تو افغان الیکشن پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔‘‘
پشاور میں ’کارخانو مارکیٹ‘ کے افغان دکاندار پریشان کیوں؟
پاکستان میں کئی عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی اکثریت خیبر پختون خوا صوبے میں مقیم ہے جو اپنی گزر بسر کے لیے کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ان مہاجرین کو خدشہ ہے کہ اگر انہیں وطن واپس بھیجا گیا تو وہاں گزارا کیسے ہو گا۔
تصویر: DW/F. Khan
کاروبار پر پابندی نہیں
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مشہور مارکیٹ،’کارخانو بازار‘ میں ایک افغان مہاجر کھجور بیچ رہا ہے۔ پاکستان میں ان افغان مہاجرین پر اپنا کاروبار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
سرمایہ ڈوب جائے گا
پشاور میں رہنے والے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں کاروبار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر انہیں واپس وطن بھیجا جاتا ہے تو ایک تو اُن کا سرمایہ ڈوب جائے گا دوسرے افغانستان میں بزنس کے لیے حالات ساز گار بھی نہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
کپڑوں کا کاروبار
پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان مہاجرین کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
بناؤ سنگھار کی چیزیں
کپڑوں کے بزنس کے علاوہ پشاور کے رہائشی مہاجرین خواتین کے بناؤ سنگھار کی اشیاء بھی بیچتے ہیں۔ اب جبکہ ملکی وفاقی کابینہ کے فیصلے کی رُو سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں دو دن باقی رہ گئے ہیں، یہ مہاجرین مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
فٹ پاتھ پر دوکان
پشاور کے بورڈ بازار اور کارخانو مارکیٹ میں افغان مہاجرین نے نہ صرف بڑی دکانیں ڈال رکھی ہیں بلکہ زیادہ سرمایہ نہ رکھنے والوں نے فٹ پاتھ پر بھی اپنا سامانِ فروخت سجایا ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
شادی کا سامان
ہت سے افغان باشندے سرحد پار کر کے شادی بیاہ کے کپڑوں اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے بھی پشاور کی کارخانو مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
پولیس سے نالاں
فٹ پاتھ پر اپنی دکان سجانے والے کئی دکانداروں کو شکایت ہے کہ پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔