مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے پر غور، تعریف بھی تنقید بھی
شمشیر حیدر
17 ستمبر 2018
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے مطابق ان کی حکومت ملک میں طویل عرصے سے مقیم افغان اور بنگلہ دیشی مہاجرین کو شہریت دینے کے معاملے پر غور کر رہی ہے۔
اشتہار
پاکستانی وزیراعظم نے اتوار سولہ ستمبر کے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں جرائم کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر میں کئی نوجوانوں کے پاس روزگار کے مواقع نہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے کراچی میں کئی دہائیوں سے مقیم افغان اور بنگلہ دیشی مہاجرین کا تذکرہ کیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان مہاجرین کے بچے بھی پاکستان میں پیدا ہو کر جوان ہو چکے ہیں لیکن ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں، جس کی وجہ انہیں نوکریاں نہیں ملتیں۔
عمران خان کی اس گفتگو کے بعد پاکستان میں مقیم بنگلہ دیشی اور افغان مہاجرین کو شہریت دینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث کی جا رہی ہے۔
صحافی رضا رومی نے عمران خان کے اعلان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا، ’’افغان اور بنگلہ دیشی مہاجرین کو شہریت کا حق دینے کا اعلان خوش آئند ہے۔ اگرچہ یہ قانون پہلے سے موجود ہے تاہم اس پر عمل درآمد کیے جانے کو خوش آمدید کہا جانا چاہیے۔ آئیے اجانب دشمنی کو مسترد کریں۔‘‘
اس فیصلے کی مخالفت میں ہیش ٹیگ #گو_افغانی_گو بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ''افغانیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جناب وزیر اعظم عمران خان اپنا فیصلہ تبدیل کریں۔ افغان بھائیوں کی مہمان نوازی بھی بہت ہو چکی اب ان کا پرامن انخلا شروع ہونا چاہیے۔‘‘
ایک ٹوئیٹر صارف نے لکھا، ''افغان یا دنیا کے کسی بھی ملک کے شہریوں کو مخصوص مدت کا ویزا دینا ۔۔۔ بری بات نہیں بلکہ اس سے دیگر ملکوں سے کاروباری لوگ بھی پاکستان کا رخ کریں گے۔ صرف امیگریشن (قوانین) مضبوط ہونا چاہییں ویزا ختم یا اوور سٹے کی پالیسی سخت ترین ہونی چاہیے البتہ نیشنیلٹی نہیں۔‘‘
ثنا بلوچ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ شہریت دینے کے فیصلے کے بعد مزید مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے۔
اے این پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان میاں افتخار حسین نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا کہ ’یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستانی شہریت کے سن 1951 کے ایکٹ کے تحت آخر کار پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان اور بنگالی مہاجرین کو شہریت دی جائے گی‘۔
اگرچہ عمران خان نے اپنی تقریر میں افغان، بنگلہ دیشی اور بہاری کمیونٹی کا ذکر کیا تھا تاہم سوشل میڈیا پر افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی تجویز کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بلوچی اور سندھی صارفین کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اس تجویز پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ماروی سرمد نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ’’بیرون ملک مقیم ’محب وطن‘ پاکستانیوں کی اکثریت طویل انتظار کے بعد غیر ملکی شہریت یا کام کے اجازت نامے حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن جب پاکستان میں مقیم افغان اور بنگلہ دیشی مہاجرین کو ویسے ہی حقوق دیے جانے کی بات کی جائے تو ان کے منہ سے بھی اجانب دشمنی پر مبنی بیانیہ سامنے آتا ہے۔‘‘
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔