1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں میریٹل ریپ پر بات کرنا مشکل کیوں ہے؟

4 دسمبر 2022

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی عالمی مہم 25 نومبر سے 10 دسمبر تک جاری رہے گی۔ اس موقع پرڈی ڈبلیو نے پاکستان میں میریٹل ریپ کی سماجی و قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔

Pakistan | Proteste in Karatschi gegen Gewalt an Frauen
تصویر: Reuters

رواں برس ٹی وی ڈرامہ 'قصہ مہر بانو کا‘ اپنے ایک مکالمے کی وجہ سے بہت زیر بحث رہا۔ ایک منظر میں بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے، ''محبت اور نکاح کے نام پہ کیا جانے والا ظلم بھی ظلم ہی ہوتا ہے۔‘‘ اس مکالمے کا پس منظر شوہر کا بیوی کی رضامندی اور مرضی کے بغیر اس سے سیکس کرنا تھا۔ میریٹل ریپ جیسے حساس موضوع پر بات کرنے کی وجہ سے جہاں اس ٹی وی ڈرامے کو بہت سراہا گیا وہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کا کہنا تھا، ''آئیں اٹھ کھڑے ہوں اور خواتین کے حقوق کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں۔‘‘ خواتین کے خلاف کیے جانے والے مختلف اقسام کے تشدد کی اقوام متحدہ کی فہرست میں میریٹل ریپ بھی شامل ہے۔

خواتین کے خلاف کیے جانے والے مختلف اقسام کے تشدد کی اقوام متحدہ کی فہرست میں میریٹل ریپ بھی شامل ہےتصویر: ARIF ALI/AFP/Getty Images

 پاکستان میں میریٹل ریپ پر بات کرنا مشکل کیوں ہے؟

دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں میریٹل ریپ کو نہ صرف سماجی سطح پر تشدد سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے خلاف سخت قوانین بھی بن چکے ہیں۔ مگر پاکستانی میں اس موضوع پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ خواتین کے حقوق کی سرگرم رکن اور قائد اعظم یونیورسٹی میں جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی سابق سربراہ فرزانہ باری اس کی جڑیں پدرسری معاشرے میں دیکھتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ہمارے معاشرے کا ڈھانچہ آج بھی صدیوں سے رائج پدرسری اقدار پر مضبوطی سے استوار ہے، جس میں خواتین کا کردار مرد کی تسکین اور اس کا وارث پیدا کرنے تک محدود ہے۔ عورت کو شادی سمیت کسی بھی سماجی معاہدے میں برابر کا انسان تصور نہیں کیا جاتا۔‘‘

وہ کہتی ہیں، ''ہمارا معاشرہ تو ابھی تک محفوظ جنسی تعامل پر متفق نہیں، میریٹل ریپ پدرسری اقدار کو اپنے زخموں پر نمک محسوس ہوتا ہے۔ سو اسے برداشت نہیں کیا جاتا۔ اسے یہود و ہنود کی سازش اور اپنی معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ سماجی دباؤ خواتین کو اپنے خلاف ہونے والے تشدد پر آواز تک نہیں اٹھانے دیتا۔‘‘

 پاکستان میں میریٹل ریپ کے حوالے سے قوانین کیا کہتے ہیں؟

 اسلام آباد ہائی کورٹ سے وابستہ نامور وکیل اور سماجی دانشور آصف محمود ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''تعزیرات پاکستان کی دفعہ 375 کے مطابق میریٹل ریپ بھی ریپ ہی سمجھا جائے گا۔‘‘ وہ کہتے ہیں،''حدود آرڈیننس میں ریپ کی تعریف میں ازدواجی رشتے کا ذکر بطور استثنا موجود تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا۔ اب اگر یہ فعل کسی کی مرضی کے بغیر یا جبری طور پر کیا جاتا ہے یا موت اور جسمانی ضرر کی دھمکی سے رضامندی حاصل کی جاتی ہے تو یہ ریپ ہو گا۔‘‘

عورت پر مرد کی اطاعت لازمی ہے، خالد مسعود

 آصف محمود اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس امر پر اختلافی آرا موجود ہیں کہ میریٹل ریپ کو ریپ سمجھا جائے گا یا تشدد کے باب میں دیکھا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے رکن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’فقہ میں مرد اور عورت کی حیثیت برابری کی نہیں اس لیے ہمارے قوانین میں اسے ریپ نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرد کی ضروریات پوری کرے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ شادی کے تعلق میں عورت مرد کی ملکیت بن جاتی ہے اور جب رخصتی ہو گئی تو وہاں مرد کی اطاعت اس کے لیے لازمی ہے، اسی لیے اسے بیت الطاعة کہتے ہیں، '' ایسی بہت سی مباحث ہیں جن کی وجہ سے شوہر کا بیوی سے زبردستی جنسی عمل ریپ نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘‘

پاکستانی معاشرہ اور عورت کے لیے طلاق

03:57

This browser does not support the video element.

قوانین واضح نہیں

خواتین کے تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے قائم کردہ صوبائی ادارے پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن سے وابستہ قانونی مشیر آمنہ آصف کہتی ہیں کہ یہ قوانین واضح نہیں، ان میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب قانونی حوالے سے پیچیدگی موجود ہو تو عوامی سطح پر ایسے مسائل کے بارے میں بات کرنا اور ان کی تدارک کی کوششیں نہایت مشکل ہو جاتی ہیں، ''اس لیے واضح قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ میریٹل ریپ کو روکنے کے لیے قانونی اور سماجی دونوں سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

 سماج میں آگاہی کیسے پھیلائی جا سکتی ہے؟

ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں نصاب اور میڈیا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نصاب میں یہ چیزیں کسی نہ کسی سطح پر شامل ہونی چاہیں، '' اس سے لڑکوں کو پتہ چلے گا کہ ایسا کرنا غیر انسانی رویہ اور تشدد ہے جبکہ لڑکیاں آگاہ ہوں گی کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ جب خواتین کو پتہ ہی نہیں ہو گا کہ یہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے تو وہ کیسے آواز اٹھائیں گی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ''میڈیا نے بہت سارے حساس موضوعات کی حساسیت کم کی ہے۔ سو میریٹل ریپ کے حوالے سے پر لکھا جانا چاہیے، دکھایا جانا چاہیے، بولا جانا چاہیے۔ اس موضوع پر ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بننی چاہییں۔ جب تک بات نہیں ہو گی بات بنے گی نہیں۔‘‘

حکومتوں کو کیا اقدامات کرنے چاہیے؟

آمنہ آصف کہتی ہیں کہ جب حکومتیں اس معاملے میں دلچسپی نہیں لیں گی تو بڑی سطح پر میریٹل ریپ کے خلاف فضا ہموار نہیں ہو گی، ''یہ ایسا معاملہ ہے جس پر پولیس اور متعلقہ شعبہ جات میں آگاہی دینے اور ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے۔ کیوں اگر کبھی ان کے پاس شکایت پہنچے بھی تو وہ متاثرہ خاتون کو ہی عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی جرم کر رہی ہے۔ کیوں کہ افسران خود نہیں جانتے کہ یہ کیسا غیر انسانی رویہ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری حقوق انسانی کی تنظیموں اور حکومتی اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے، اس حوالے سے باقاعدہ مہم ڈیزائن کرنی چاہیے اور میڈیا کی مدد سے آگاہی کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے، ''اس میں شعبہ صحت کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ نفسیاتی سطح پر متاثرہ خاتون کی مدد کر سکے۔”

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں