پاکستان میں میڈیا ٹریبونلز کے قیام کا اعلان، معاملہ ہے کیا؟
عبدالستار، اسلام آباد
18 ستمبر 2019
پاکستانی حکومت کی طرف سے میڈیا ٹریبونلز کے قیام کے فیصلے پر صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان ٹریبونلز کے ذریعے ملکی میڈیا پر مزید قدغنیں لگانے جا رہی ہے۔
اشتہار
اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے منگل سترہ ستمبر کو ان ٹریبونلز کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اس حکومتی فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے منگل کے روز ذرائع ابلاغ کو اسلام آباد میں بتایا تھا کہ پیمرا میں زیر التوا مقدمات ان ٹریبونلز کو منتقل کر دیے جائیں گے اور ایسے مقدمات میں فیصلے نوے دن میں سنا دیے جائیں گے۔
صحافیوں کے لیے برا وقت
تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس نے 2013ء کے دوران پریس فریڈم پر ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں آج کی صورتحال زیادہ خراب ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ترکی اور یوکرائن ’آزاد نہیں‘
متوازن رپورٹنگ، صحافیوں کا تحفظ اور میڈیا پر حکومتی اثرورسوخ کم یا نہ ہونا، غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس کے مطابق 2013ء میں دنیا کی صرف چودہ فیصد آبادی ایسے حالات میں سانس لینے کے قابل رہ سکی۔ 1996ء کے بعد یہ شرح اس وقت کم ترین ہے۔ ایسے ممالک جہاں پریس کی آزادی کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں، ان میں ترکی اور یوکرائن بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
وسطی ایشیا ایک مشکل خطہ
آزادی صحافت کے بارے میں فریڈم ہاؤس کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق ترکمانستان، ازبکستان اور بیلاروس میں صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ 197 ممالک میں کرائے گئے اس سروے کے مطابق پریس فریڈم کے حوالے سے بہترین ممالک ہالینڈ، ناروے اور سویڈن قرار پائے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صحافیوں پر حملے
گزشتہ برس ترکی میں صحافیوں پر متعدد حملے ہوئے۔ مثال کے طور پر (تصویر) گوکان بچیجے کو استبول میں واقع گیزی پارک میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق ترکی میں گزشتہ برس صرف دسمبر میں ہی چالیس صحافی گرفتار کیے گئے۔ ترکی میں آزادی صحافت کی صورتحال وقت کے ساتھ نازک ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
یوکرائن کی صورتحال
گزشتہ برس یوکرائن میں بھی آزادی صحافت کے لیے ناخوشگوار رہا، جہاں کییف کے میدان اسکوائر پر منعقد کی گئی حکومت مخالف ریلیوں کے دوران خاتون صحافی ٹاٹیانا چورنووَل کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد ہزاروں افراد نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا۔ چورنووَل نے یوکرائن کے معزول صدر وکٹور یانوکووچ کی پرتعیش طرز زندگی کو اجاگر کیا تھا۔
تصویر: Genya Savilov/AFP/Getty Images
’جھوٹ بولنا بند کرو‘
گزشتہ برس پریس فریڈم کے حوالے سے روس اور چین میں بھی صورتحال ابتر ہی رہی۔ ان ممالک میں حکومت نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے متعدد ایسے قوانین منظور کیے، جن سے بالخصوص انٹر نیٹ پر آزادی صحافت پر قدغنیں لگیں۔ روس میں بہت سے لوگ اس صورتحال پر نہ صرف ناراض ہیں بلکہ وہ احتجاج بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صحافیوں کی جاسوسی
امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں پریس فریڈم ہے تاہم وہاں حکومتی انفارمیشن پالیسی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ وہاں اکثر ہی قومی سلامتی کے نام پر سرکاری معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں اور صحافیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذرائع بتائیں، جنہوں نے انہیں باخبر کیا ہے۔ امریکا میں حکام نے اے پی کے ایک صحافی کی ٹیلی فون کال ریکارڈ بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مصر، مبارک کے دور کی جھلکیاں
مصر میں گزشتہ برس پریس فریڈم کی صورتحال کو خطرناک تصور کیا گیا ہے۔ وہاں محمد مرسی کی معزولی کے بعد صورتحاکل مزید خراب ہوئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مرسی خود بھی پریس فریڈم کے دشمن قرار دیے جاتے تھے۔ مصر میں 2013ء کی آخری ششماہی میں بیمشار صحافی گرفتار کیے گئے۔ فریڈم ہاؤس کے مطابق اس دوران فوجی کارروائی کے نتیجے میں پانچ صحافی ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: AFP/Getty Images
مالے میں خوش کن پیشرفت
جہاں کئی ممالک میں پریس فریڈم کے حوالے سے صورتحال بگڑی ہے، وہیں کچھ ممالک میں یہ صورتحال بہتر بھی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر مالے میں صدارتی انتخابات کے انعقاد اور اسلامی باغیوں کو پسپا کرنے کے بعد سیاسی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ مالے میں 2012ء کی فوجی بغاوت کے بعد بند کر دیے گئے متعدد میڈیا ادارے اب دوبارہ کام کرنے لگ گئے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
کرغزستان اور نیپال میں بہتری
پریس فریڈم کے حوالے سے جن دیگر ممالک میں مثبت تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، ان میں کرغزستان بھی شامل ہے، جہاں گزشتہ برس صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی شرح کافی کم ہو گئی۔ اسی طرح نیپال میں بھی صحافت پر حکومتی کنٹرول ختم کر دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود بھی ان دونوں ممالک میں صحافیوں کو دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
9 تصاویر1 | 9
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ٹریبونلز میڈیا انڈسٹریز اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے حوالے سے معاملات کو نمٹائیں گے جب کہ ان ٹریبونلز کی نگرانی اعلیٰ عدالتیں کریں گی۔
ان ٹریبونلز کے قیام کے لیے مختلف حکومتوں نے ماضی میں بھی کوششیں کی تھیں لیکن صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے انہیں اپنے ارادے ترک کرنا پڑے تھے۔ اب تاہم ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ان کے قیام کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔
ناقدین کے خیال میں پاکستان میں پہلے ہی میڈیا پر بہت سی غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں اور اب اس فیصلے کے بعد ان پابندیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ میڈیا کے حوالے سے پالیسی بنانا حکومت کا کام نہیں ہے۔
انہوں نے اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میڈیا ہاؤسز کے مالکان، مدیران اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں موجود ہیں اور ان مسائل پر انہوں نے ماضی میں بھی پالیسیاں بنائی ہیں اور اب بھی ایسا کر سکتی ہیں۔ تو حکومت کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی طرح کے میڈیا ٹریبونلز قائم کرے۔ اس کا سیدھا سا مقصد میڈیا پر مزید پابندیاں لگانا اور اظہار رائے کی آزادی کے مواقع کو مزید کم کرنا ہے۔‘‘
ایک ریگولیٹری اتھارٹی پہلے سے ہے تو
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کے خیال میں ایک ریگولیٹری باڈی پہلے ہی سے موجود ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پھر میڈیا ٹریبونلز کیوں بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پیمرا کی شکل میں پہلے ہی ایک ریگولیڑی اتھارٹی موجود ہے، جو میڈیا کے حوالے سے شکایات اور اعتراضات سنتی ہے، جس کے سامنے کئی بار میں خود بھی پیش ہوا ہوں اور سول سوسائٹی کے افراد بھی اس کی کارروائیوں کا حصہ رہے ہیں۔ اس طرح شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے بھی پیمرا کی کارروائیوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ تو پیمرا کی موجودگی کے باوجود ایسے ٹریبونل بنانے کا مقصد پھر واضح ہے کہ حکومت میڈیا پر مزید سختیاں کرنا چاہتی ہیں۔‘‘
سینیٹر تاج حیدر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو ایسے ٹریبونلز کے قیام کے لیے قانون سازی کرنا پڑے گی، ''ہم ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے اور میڈیا پر پابندیاں کسی بھی صورت قبول نہیں کی جائیں گی۔‘‘
'مقصد صحافیوں کی بہتری نہیں‘
پاکستان میں کچھ حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان ٹریبونلز سے صحافیوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری ناصر محمود کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت صحافت اور صحافیوں کی بہتری کے لیے یہ ٹریبونل قائم کرنا چاہ رہی ہے۔
پاکستان کے ڈیجیٹل ماہرین
#اسپیک اپ بیرو میٹر ٹیم نے چند پاکستانی ڈیجٹل ماہرین کے ساتھ خصوصی انٹرویو کیے ہیں۔ ان کا تعلق ڈیجیٹل حقوق، ذرائع ابلاغ و صحافت، معاشرے اور اختراعات کے شعبوں سے ہے۔
تصویر: DW/Q. Zaman
نگہت داد
نگہت داد ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان کی ایگزیکيٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ پاکستان اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی کی مہم کے اولین کارکنوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کی آزادی، خواتین اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل سکیورٹی کے علاوہ خواتین کی معاشی خود مختاری جیسے معاملات کے لیے بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: DW/U. Wagner
سعد حامد
سعد حمید گوگل کے کمیونٹی مینیجر ہیں اور ایک کمپنی ڈیجیٹل ایکوسسٹم کے کنسلٹنٹ ہیں۔ وہ ایک کمپنی ڈیمو اینٹرپرائز کے چیف ایگزیکيٹر افسر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ نوجوان پاکستانیوں کی ڈیجیٹل مہارت کو بہتر بنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: privat
فریحہ عزیز
فریحہ عزیر ڈیجیٹل حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیم ’بولو بھی‘ کی شریک بانی ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے وہ سینسر شپ فری ایکسپریشن ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ یہ ایوارڈ انہيں پاکستان میں سائبر کرائم بل متعارف کرانے کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔
تصویر: Privat
اسد بیگ
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی کمپنی کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسد بیگ۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ترقی کے امور کے ماہر خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ میڈیا کی قوت پر یقین رکھتے ہیں اور اس باعث وہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے لیے ایک فعال کردار ادا کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zaman
زیب النسا برکی
پاکستان کے معتبر انگریزی اخبار روزنامہ دی نیوز کے ادارتی مواد اور رائے عامہ کے شعبے کی ڈپٹی ایڈیٹر ہیں۔ وہ ایک تربیت یافتہ وکیل بھی ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے کمیونیکیشن اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ ایشیا جرنل کی سات برس تک ایگزیکيٹو ایڈیٹر رہنے کے علاوہ میڈیا کے شعبے میں جنوبی ایشیا اورجنوبی ایشیائی خواتین(SAWM) کے نیٹ ورک کی شریک بانی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zaman
شہزاد احمد
’بائٹس فار آل‘ نامی ادارے کے پاکستانی دفتر کے سربراہ شہزاد احمد ہیں۔ ’بائٹس فار آل‘ انسانی حقوق کا ادارہ ہے اور یہ اطلاعات اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی برائے ترقیاتی امور، جمہوریت اور سماجی انصاف پر فوکس کرتا ہے۔ شہزاد احمد ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں اور کئی مختلف گروپوں کے رکن بھی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zaman
صباحت ذکریا
صباحت ذکریا انگریزی اخبار دی نیوز کی نائب مدیر ہیں۔ وہ نیو یارک یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ انہیں فلک صوفی اسکالر شپ سے بھی نوازا گیا تھا۔ ان کے ایم اے میں تھیسس کا عنوان تھا ’ پاکستان میں انفرادی عورت کو حاصل ہونے والا عروج‘۔ یہ تھیسس بلوم برگ بھارت نے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: Qurratulain Zaman
ماروی سرمد
ماروی سرمد پاکستان میں گزشتہ پچیس برسوں سے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہونے کے علاوہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ حقوقِ انسانی، اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور آزادئ اظہار کے لیے بھی متحرک ہیں۔ وہ پاکستانی ہیومن رائٹس کمیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی رکن ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
تصویر: Qurratulain Zaman
شہریار پوپلزئی
میڈیا انڈسٹری میں شہریار پوپلزئی بطور ڈیجیٹل اسٹریٹیجسٹ کے ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس نائٹ کے سابق فیلو ہونے کے علاوہ انگریزی اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zaman
صدف خان
صدف خان ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ نامی ادارے کی شریک بانی ہونے کے علاوہ اِس کی پروگرام ڈائریکٹر بھی ہیں۔ وہ سن 2002 سے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی ترقی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ شیوننگ اسکالر شپ حاصل کرنے کے بعد لندن اسکول آف اکنامکس میں زیر تعلیم رہ چکی ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zaman
جہاں زیب حق
پاکستان میں ڈان میڈیا گروپ کے چیف اسٹریٹیجسٹ جہاں زیب حق ہیں۔ اُن کی توجہ کا مرکز موجودہ ڈیجیٹل عہد میں ادارے کی ادارتی سرگرمیاں ہیں۔ وہ ڈان ڈاٹ کام اور ڈان نیوز ٹیلی وژن میں ایڈیٹر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اُن کے تحقیقی مضامین کے موضوعات سائبر اسپیس کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا، انٹرنیٹ اور انسانی حقوق کی موجودہ صورت حال سے متعلق ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zaman
ڈاکٹر ندا کرمانی
معتبر پاکستانی تعلیمی ادارے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے مشتاق احمد گورمانی اسکول برائے ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ندا کرمانی ’سیدہ وحید جینڈر انیشی ایٹیو‘ کی فیکلٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کے کئی مضامین کا موضوع جینڈر، اسلام، نسوانی تحریکیں اور مطالعہٴ برائے پاک بھارت کی شہری ترقیاتی ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zaman
رضا احمد رومی
رضا احمد رومی مختلف ملکی پالیسیوں کے تجزیہ کار ہونے کے علاوہ ایک صحافی اور مصنف بھی ہیں۔ وہ کورنل انسٹیوٹ برائے عوامی امور کے جزوقتی استاد بھی ہیں۔ وہ سن 2015 سے لے کر 2017 تک ایتھیکا کالج، گیلیٹن اسکول اور نیویارک یونیورسٹی میں صحافت کے بعض کورسز پڑھا چکے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zaman
صوفیہ حسنین
لنکڈ تھنگز نامی کمپنی کی بانی اور چیف ایگزیکٹو افیسر صوفیہ حسنین ہیں۔ ان کا ادارہ ڈیجیٹل مسائل کا حل فراہم کرتا ہے۔ صوفیہ حسنین نے امریکا سے الیکٹریکل انجینیئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ بعض یورپی ممالک میں بھی ملازمت کرتی رہی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zaman
14 تصاویر1 | 14
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے زیادہ تر چینلز اور میڈیا ہاؤسز کنٹرول کر لیے ہیں۔ لیکن کچھ میڈیا ہاؤسز کنٹرول نہیں ہو پا رہے۔ اسی لیے عمران خان کی حکومت نے بھی پیمرا کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک بڑا چینل اب بھی نون لیگ کا حامی ہے اور اس پارٹی کا بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تو پیمرا کو ختم کر کے ایسے چینلز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘
ناصر محمود کا مزید کہنا تھا کہ صحافت اور صحافیوں کی بہتری کے لیے حکومت کو کسی ٹریبونل کی ضرورت نہیں۔
اگر حکومت صحافیوں کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے، تو وہ یہ کام کسی ٹریبونل کے بغیر بھی کر سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا، ''کچھ میڈیا ہاؤسز میں مہینوں اور کئی اداروں میں سالوں سے میڈیا کارکنان کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ حکومت نے ان کے لیے کیا کیا ہے؟ صرف میڈیا مالکان سے ساز باز کی ہے جب کہ صحافی حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔‘‘
'حکومت ملکی میڈیا پر سو فیصد کنٹرول کی خواہش مند‘
پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سابق رکن اور معروف صحافی ناصر ملک ان آئندہ ٹریبونلز کے پیچھے اندرونی اور بیرونی عوامل بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''حکومت میڈیا پر سو فیصد کنٹرول چاہتی ہے۔ مارشل لاء سے بھی بدتر سنسر شپ آنے والی ہے۔ خطے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، جو کسی بھی وقت جنگی صورت حال میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ جنگ کی صورت میں پاکستان میں حکومت خارجہ امور پر یو ٹرن لے گی، جس پر شدید عوامی تنقید بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس طرح کے ٹریبونلز بنا کر صحافیوں کو سزائیں دی جائیں گی اور میڈیا پر بھر پور پابندیاں لگائی جائیں گی۔‘‘
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے پریس فریڈم انڈکس 2018 جاری کر دیا ہے، جس میں دنیا کے 180 ممالک میں میڈیا کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے درجہ بندی کی گئی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال جانیے، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture alliance/dpa/N. Khawer
بھوٹان
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔
تصویر: DJVDREAMERJOINTVENTURE
نیپال
ایک سو اسّی ممالک کی فہرست میں نیپال عالمی سطح پر 106ویں جب کہ جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر رہا۔ نیپال بھی تاہم گزشتہ برس کے مقابلے میں چھ درجے نیچے چلا گیا۔ گزشتہ برس نیپال ایک سوویں نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Maharjan
افغانستان
اس واچ ڈاگ نے افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس برس کی درجہ بندی میں افغانستان نے گزشتہ برس کے مقابلے میں دو درجے ترقی کی ہے اور اب عالمی سطح پر یہ ملک 118ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں افغانستان تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Tone Koene
مالدیپ
اس برس کے انڈکس کے مطابق مالدیپ جنوبی ایشیا میں چوتھے جب کہ عالمی سطح پر 120ویں نمبر پر ہے۔ مالدیپ گزشتہ برس 117ویں نمبر پر رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo(M. Sharuhaan
سری لنکا
جنوبی ایشیا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سری لنکا میں میڈیا کی آزادی کی صورت حال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ سری لنکا دس درجے بہتری کے بعد اس برس عالمی سطح پر 131ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: DW/Miriam Klaussner
بھارت
بھارت میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس پر رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی درجہ بندی میں بھارت اس برس دو درجے تنزلی کے بعد اب 138ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
پاکستان
پاکستان گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی عالمی سطح پر 139ویں نمبر پر رہا۔ تاہم اس میڈیا واچ ڈاگ کے مطابق پاکستانی میڈیا میں ’سیلف سنسرشپ‘ میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے کم آزادی بنگلہ دیش میں حاصل ہے۔ گزشتہ برس کی طرح امسال بھی عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش 146ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stache
عالمی صورت حال
اس انڈکس میں ناروے، سویڈن اور ہالینڈ عالمی سطح پر بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ چین 176ویں جب کہ شمالی کوریا آخری یعنی 180ویں نمبر پر رہا۔
9 تصاویر1 | 9
دوسری طرف کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں پریس کو بے لگام آزادی حاصل ہے اور وہ جس کی چاہتا ہے، پگڑی اچھالتا پھرتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ عوام حکومت کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میڈیا جس پر چاہے الزام لگا دیتا ہے۔ عام آدمی کے پاس کوئی فورم نہیں، جہاں وہ اس کے خلاف کوئی شکایت کر سکے۔ پیمرا اور پاکستان پریس کونسل کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرتے۔ اس لیے ایسے کسی نئے فورم کا قیام خوش آئند ہے۔ صحافی تنظیمیں اس کے خلاف احتجا ج کریں گی کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ٹریبونلز بننے کے بعد ان کا بھی احتساب ہوگا جب کہ میڈیا مالکان اس کی اس لیے مخالفت کریں گے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ان ٹریبونلزکو میڈیا ہاؤسز کے خلاف استعمال کر سکے گی اور ان کو مالی نقصان پہنچا سکے گی۔‘‘
اس موضوع پر حکومتی موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعدد سرکاری اہلکاروں سے رابطے کی کوشش کی، انہیں فون بھی کیے گئے، لیکن کوئی رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
ورلڈ پریس فوٹو: سال کی بہترین تصاویر
ہینری کارٹیئر بریسن کے بقول ’ایک اچھی تصویر وہ ہوتی ہے، جس پر نگاہ ایک سیکنڈ سے زائد ٹکی رہے۔‘ ’ورلڈ پریس فوٹو 2019ء ‘ کا تصویری مقابلہ ان کے اس قول کو آج بھی درست ثابت کرتا ہے۔
تصویر: Brent Stirton/Getty Images for National Geographic
سال کی بہترین تصویر: بارڈر پر روتی ننھی بچی
میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر ہونڈوراس سے تعلق رکھنے والی پناہ گزین سانڈرا کو حراست میں لیا جار رہا ہے۔ فوٹوگرافر جون مُور کی اس تصویر میں دو سالہ یانیلا سانچیز اپنی والدہ کی گرفتاری پر رو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی مہاجرین کے خلاف سخت پالیسی کے نتیجے میں متعدد پناہ گزین والدین اپنے بچوں سے الگ کر دیے گئے۔
تصویر: John Moore/Getty Images
سال کی بہترین کہانی: مہاجرین کا کارواں
’ایجنسی وی یو‘ سے منسلک ڈچ فوٹوگرافر پیٹر ٹین ہوپن نے گزشتہ برس اکتوبر میں پناہ کی تلاش میں امریکا کا رخ کرنے والے مہاجرین کی یہ تصویر بنائی تھی۔ اس وقت ہنڈورس سمیت دیگر وسطی امريکی ممالک سے ہزاروں تارکين وطن مختلف قافلوں کی صورت میں میکسیکو کے راستے امريکی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے۔
تصویر: Pieter Ten Hoopen/Agence VU/Civilian Act
عصری مسائل: کیوبا
ہوانا میں ایک کیوبن لڑکی نے بلوغت سے جوانی میں داخل ہونے کے روایتی جشن ’کوئن سیانیرا‘ کے سلسے میں 1950ء کی ایک پنک ’ونٹیج کار‘ میں سفر کیا۔ ڈیانا مارکوسیان کی اس تصویر کی خاص بات یہ بھی ہے کہ پندرہ سالہ لڑکی ’پورا‘ دماغ کے کینسر میں مبتلا تھی۔
تصویر: Diana Markosian/Magnum Photos
ماحولیات: اکاشنگا ۔ بہادر شخص
زمبابوے کے ایک تالاب میں پیٹرونیلا چگُمبرا سنائپر رائیفل کے ساتھ خواتین فورسز کی ٹریننگ کر رہی ہے۔ زمبابوے میں خواتین کی یہ فورس ماحولیات اور جنگلی حیاتیات کا تحفظ کرتی ہیں۔ ان کو مقامی زبان میں ’اکاشنگا‘ یعنی ایک بہادر شخص کہا جاتا ہے۔ یہ تصویر گیٹی امیجز کے فوٹوگرافر بینٹ سٹرٹون نے بنائی ہے۔
تصویر: Brent Stirton/Getty Images
حالات حاضرہ: جمال خاشقجی کا قتل
آسٹریلوی فوٹوگرافر کِرس میک گراتھ استنبول میں قائم سعودی سفارت خانے کے سامنے اس وقت موجود تھے جب سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کی وہاں سے گمشدگی بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی خبر بن گئی۔ اس تصویر میں سعودی سفارتخانے کا اہلکار صحافیوں کو سفارتخانے میں داخل ہونے سے روک رہا ہے۔
تصویر: Chris McGrath/Getty Images
طویل دورانیہ کے منصوبے: قوم پرستی
دیمتروف میں موسیقی کے ایک مقابلے کے بعد چند روسی طلبا بیک اسٹیج میں لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ امریکی اور روسی نوجوانوں میں بڑھتی قوم پرستی پر مشاہدے کے سلسلے میں دستاویزی فوٹوگرافر سارا بلیزنر نے دونوں ممالک میں متعدد مقامات کو دورہ کیا۔
تصویر: WPPF-2019/Sarah Blesener
فطرت: عقاب اور عرب
عرب میں عقاب یا باز کے شکار کی روایت صدیوں پرانی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس جنگلی پرندے کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ منگولیا میں ایک باز اور اس کے بچوں کی تصویر گیٹی امیجز کے فوٹوگرافر بینٹ سٹرٹن نے بنائی ہے۔
تصویر: Brent Stirton/Getty Images for National Geographic
کھیل: کٹنگا میں باکسنگ
کٹنگا کے رائنو باکسنگ کلب میں بچے باکسنگ کی ٹریننگ کرتے ہیں۔ کٹنگا یوگنڈا کے شہر کمپالا کی ایک بڑی کچی آبادی ہے۔ یہاں بیس ہزار سے زائد افراد شدید غربت کا شکار ہیں۔ اس کلب کو کسی قسم کی بیرونی مالی امداد موصول نہیں ہوتی۔ یہ تصویر ناروے کے فوٹوگرافر جون پیٹرسن نے بنائی ہے۔