1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں میڈیا ٹریبونلز کے قیام کا اعلان، معاملہ ہے کیا؟

عبدالستار، اسلام آباد
18 ستمبر 2019

پاکستانی حکومت کی طرف سے میڈیا ٹریبونلز کے قیام کے فیصلے پر صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان ٹریبونلز کے ذریعے ملکی میڈیا پر مزید قدغنیں لگانے جا رہی ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے منگل سترہ ستمبر کو ان ٹریبونلز کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اس حکومتی فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے منگل کے روز ذرائع ابلاغ کو اسلام آباد میں بتایا تھا کہ پیمرا میں زیر التوا مقدمات ان ٹریبونلز کو منتقل کر دیے جائیں گے اور ایسے مقدمات میں فیصلے نوے دن میں سنا دیے جائیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ٹریبونلز میڈیا انڈسٹریز اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے حوالے سے معاملات کو نمٹائیں گے جب کہ ان ٹریبونلز کی نگرانی اعلیٰ عدالتیں کریں گی۔

ان ٹریبونلز کے قیام کے لیے مختلف حکومتوں نے ماضی میں بھی کوششیں کی تھیں لیکن صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے انہیں اپنے ارادے ترک کرنا پڑے تھے۔ اب تاہم ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ان کے قیام کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔

ناقدین کے خیال میں پاکستان میں پہلے ہی میڈیا پر بہت سی غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں اور اب اس فیصلے کے بعد ان پابندیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ میڈیا کے حوالے سے پالیسی بنانا حکومت کا کام نہیں ہے۔

انہوں نے اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میڈیا ہاؤسز کے مالکان، مدیران اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں موجود ہیں اور ان مسائل پر انہوں نے ماضی میں بھی پالیسیاں بنائی ہیں اور اب بھی ایسا کر سکتی ہیں۔ تو حکومت کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی طرح کے میڈیا ٹریبونلز قائم کرے۔ اس کا سیدھا سا مقصد میڈیا پر مزید پابندیاں لگانا اور اظہار رائے کی آزادی کے مواقع کو مزید کم کرنا ہے۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. K. Bangash

ایک ریگولیٹری اتھارٹی پہلے سے ہے تو

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کے خیال میں ایک ریگولیٹری باڈی پہلے ہی سے موجود ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پھر میڈیا ٹریبونلز کیوں بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پیمرا کی شکل میں پہلے ہی ایک ریگولیڑی اتھارٹی موجود ہے، جو میڈیا کے حوالے سے شکایات اور اعتراضات سنتی ہے، جس کے سامنے کئی بار میں خود بھی پیش ہوا ہوں اور سول سوسائٹی کے افراد بھی اس کی کارروائیوں کا حصہ رہے ہیں۔ اس طرح شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے بھی پیمرا کی کارروائیوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ تو پیمرا کی موجودگی کے باوجود ایسے ٹریبونل بنانے کا مقصد پھر واضح ہے کہ حکومت میڈیا پر مزید سختیاں کرنا چاہتی ہیں۔‘‘

سینیٹر تاج حیدر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو ایسے ٹریبونلز کے قیام کے لیے قانون سازی کرنا پڑے گی، ''ہم ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے اور میڈیا پر پابندیاں کسی بھی صورت قبول نہیں کی جائیں گی۔‘‘

تصویر: DW/T. Shahzad

'مقصد صحافیوں کی بہتری نہیں‘

پاکستان میں کچھ حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان ٹریبونلز سے صحافیوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری ناصر محمود کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت صحافت اور صحافیوں کی بہتری کے لیے یہ ٹریبونل قائم کرنا چاہ رہی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے زیادہ تر چینلز اور میڈیا ہاؤسز کنٹرول کر لیے ہیں۔ لیکن کچھ میڈیا ہاؤسز کنٹرول نہیں ہو پا رہے۔ اسی لیے عمران خان کی حکومت نے بھی پیمرا کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک بڑا چینل اب بھی نون لیگ کا حامی ہے اور اس پارٹی کا بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تو پیمرا کو ختم کر کے ایسے چینلز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘

ناصر محمود کا مزید کہنا تھا کہ صحافت اور صحافیوں کی بہتری کے لیے حکومت کو کسی ٹریبونل کی ضرورت نہیں۔

اگر حکومت صحافیوں کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے، تو وہ یہ کام کسی ٹریبونل کے بغیر بھی کر سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا، ''کچھ میڈیا ہاؤسز میں مہینوں اور کئی اداروں میں سالوں سے میڈیا کارکنان کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ حکومت نے ان کے لیے کیا کیا ہے؟ صرف میڈیا مالکان سے ساز باز کی ہے جب کہ صحافی حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔‘‘

'حکومت ملکی میڈیا پر سو فیصد کنٹرول کی خواہش مند‘

پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سابق رکن اور معروف صحافی ناصر ملک ان آئندہ ٹریبونلز کے پیچھے اندرونی اور بیرونی عوامل بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''حکومت میڈیا پر سو فیصد کنٹرول چاہتی ہے۔ مارشل لاء سے بھی بدتر سنسر شپ آنے والی ہے۔ خطے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، جو کسی بھی وقت جنگی صورت حال میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ جنگ کی صورت میں پاکستان میں حکومت خارجہ امور پر یو ٹرن لے گی، جس پر شدید عوامی تنقید بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس طرح کے ٹریبونلز بنا کر صحافیوں کو سزائیں دی جائیں گی اور میڈیا پر بھر پور پابندیاں لگائی جائیں گی۔‘‘

دوسری طرف کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں پریس کو بے لگام آزادی حاصل ہے اور وہ جس کی چاہتا ہے، پگڑی اچھالتا پھرتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ عوام حکومت کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میڈیا جس پر چاہے الزام لگا دیتا ہے۔ عام آدمی کے پاس کوئی فورم نہیں، جہاں وہ اس کے خلاف کوئی شکایت کر سکے۔ پیمرا اور پاکستان پریس کونسل کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرتے۔ اس لیے ایسے کسی نئے فورم کا قیام خوش آئند ہے۔ صحافی تنظیمیں اس کے خلاف احتجا ج کریں گی کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ٹریبونلز بننے کے بعد ان کا بھی احتساب ہوگا جب کہ میڈیا مالکان اس کی اس لیے مخالفت کریں گے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ان ٹریبونلزکو میڈیا ہاؤسز کے خلاف استعمال کر سکے گی اور ان کو مالی نقصان پہنچا سکے گی۔‘‘

اس موضوع پر حکومتی موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعدد سرکاری اہلکاروں سے رابطے کی کوشش کی، انہیں فون بھی کیے گئے، لیکن کوئی رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں