پاکستان میں نئی قومی توانائی پالیسی مؤخر
23 جولائی 2013اس پالیسی کی منظوری منگل کے روز وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی زیرِصدارت مشترکہ مفادات کی کونسل(سی سی آئی) کے اجلاس میں دی جانی تھی۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ہونیوالے سی سی آئی کے پہلے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور کونسل کے دیگر ارکان شریک ہوئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اجلاس میں سندھ اور خیبر پختونخواہ نے وفاقی حکومت کی طرف سے تیار کردہ توانائی پالیسی پر شدید اعتراضات اٹھا ئے۔ صوبائی حکومتوں کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ کونسل کے اجلاس سے صرف24 گھنٹے قبل پالیسی کا مسودہ دیا گیا جبکہ اسکی تیاری میں بھی صوبوں سے مشاورت نہیں کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ اور خیبر پختونخواہ نے مجوزہ پالیسی کی بعض شقوں کو آئین اور صوبائی خود مختاری کے بھی خلاف قرار دیا۔ ان دو صوبوں نے خاص طور پر پالیسی میں شامل اس تجویز کو ناقابل قبول قرار دیا، جس میں صوبوں کو بجلی کے بلوں کے سرکاری ونجی نادہندگان سے واجبات کی وصولی کا پابند کیا گیا ہے اور ناکامی کی صورت میں یہ واجبات این ایف سی کے ذریعے صوبوں کے حصے سے منہا کیے جائیں گے۔ تاہم صوبوں کی جانب سے اعتراضات کے بعد اس مجوزہ پالیسی کو مزید بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نے چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو موجودہ تجاویز پر نظر ثانی کرنے کے علاوہ آئینی امور کا جائزہ لے کر 31 جولائی تک اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
پاکستان میں توانائی کے شعبے کی کوریج کرنے والے ڈان گروپ سے وابستہ صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے تونائی کے بحر ان کو سامنے رکھتے ہوئے اس پالیسی میں نسبتا بہتر تجاویز دی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’"بے شک صوبوں کے لئے یہ ایک کڑوی گولی ہے کیونکہ سب سے زیادہ بجلی کی چوری سندھ اور اس کے بعدخیبر پختونخواہ میں ہے لیکن اگر صوبے یہ کڑوی گولی کھا لیتے ہیں اور گورننس کے ذریعے نادہندگان سے ریکوری کر لیتے ہیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی لیکن اگر اس پالیسی کی روح کو بر قرار نہ رکھا گیا تو پھر کوئی حل نہیں ہو گا کہ ہم اگلے پانچ سالوں تک بھی ملک کو اس بحران سے نکال سکیں‘‘۔
مجوزہ پالیسی کے خدوخال
حکومت کی جانب سے پیش کردہ نئی مجوزہ قومی توانائی پا لیسی کے مسودے کے مطابق مطابق توانائی پالیسی کے ذریعے مرحلہ وار سبسڈی مکمل طور پر ختم کردی جائے گی۔ اس پالیسی کے مطابق عوام 2018 تک ناصرف لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرلیں گے بلکہ ملک میں بجلی سرپلس ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ سرکاری پاور پلانٹس اور چند تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی تجویز بھی دی گئی ہے
توانائی کے شعبے کے ماہر ارشد حسین عباسی کا کہنا ہے کہ پالیسی میں عوام کو دی گئی سبسڈی ختم کرنے کے حوالے سے وضاحت موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ ایک قابل عمل بات تھی جس کو سب نے تسلیم کیا اور انہوں (حکومت ) نے بھی یہی کہا تھا کہ آئی پی پیز اور جنکوز کی پیداواری لاگت کم کریں گے تاکہ کم ایندھن میں زیادہ بجلی پیدا کی جا سکے۔ اس کے بجائے الٹا کام یہ ہورہا ہے کہ آپی پیز کا کچہ نہیں کر سکتے جنکوز کا نظام ویسے بھی ختم ہو رہا ہے تو حکومت نے یہ کیا کہ وہ ساری سبسڈی ختم کر رہے ہیں اور اپنے اداروں کی ناقص کارکردگی کا بوجھ عام پر ڈالا جائے گا"۔
مجوزہ پالیسی کے تحت بجلی کی قیمت 15روپے فی یونٹ سے کم کرکے 9روپے فی یونٹ تک لائی جائے گی۔ 60دن تک بجلی کا بل ادا نا کرنے کی صورت میں کنکشن منقطع کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بجلی چوری کی صورت میں کنکشن منقطع کر کے پری پیڈ میٹر لگایا جائے گا یعنی پیشگی ادائیگی کے بعد بجلی استعمال کی جاسکے گی۔ بجلی کی چوری اور بل کی کم وصولی والے علاقوں میں زیادہ لوڈشیڈنگ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پالیسی میں غیر معیاری الیکٹرانکس پر پابندی عائد کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ صوبوں کے ذمے سرکاری ونجی واجبات فیڈرل ایڈجسٹر کے ذریعے ایڈجسٹ کئے جائیگے جس سے وزارت خزانہ کو 200ارب روپے سالانہ نقصان سے چھٹکارا مل جائے گا۔