1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی، توقعات اور خدشات

22 نومبر 2022

پاکستان میں جاری اقتصادی اور سیاسی بحرانوں میں فوجی سربراہ کی تقرری پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ نئے آرمی چیف اندرون ملک فوج کا سیاسی کردار ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

Pakistan | Militärparade zum Nationalfeiertag
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture-alliance

پاکستان کی جوہری ہتھیاروں سے لیسفوج کے نئے سربراہ کی تقرری اس ماہ کے آخر میں کر دی جائے گی۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی ملازمت کی مدت پوری پر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ بحرانوں کے شکار پاکستان میں فوج ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ اس صورتحال میں اگلے فوجی سربراہ کی تعیناتی پاکستان کی کمزور جمہوریت اور اس کے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر اہم اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

سابق فوجی آمر پرویز مشرف اقتدار پر براہ راست قبضہ کرنے والے اب تک کے آخری فوجی سربراہ تھےتصویر: Rafat Saeed/DW

بر صغیر کی تقسیم کے بعد سے پاکستان کی آزادی اور قیام کے 75 برسوں کے دوران فوج نے تین بار اقتدار پر قبضہ کیا اور تین دہائیوں سے زیادہ ملک پر براہ راست حکومت کی اور اسی دوران بھارت کے ساتھ تین جنگیں بھی لڑیں۔ پاکستان میں فوج کا اس قدر غلبہ ہےکہ ایک سویلین حکومت کے اقتدار میں ہونے کے باوجود فوجی جرنیلوں کا سلامتی کے معاملات اور خارجہ امور پر گہرا اثر و رسوخ برقرار رہتا ہے۔

اسی سبب فوج کا نیا سربراہ بھارت میں ہندو قوم پرست حکومت اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ تعلقات کے کی نوعیت کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کر سکتا ہے کہ پاکستان چین یا امریکہ میں سے کس کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے۔

باجوہ کی میراث

 2016 ء میں فوجی کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل باجوہ نے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔  اس دوران جہاں اسلام آباد بیجنگ کے قریب ہوا وہیں پر باجوہ نے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے بھی کام کیا۔ اس ضمن  میں پاکستانی فوج  نے 2021ء میں کابل سے امریکی اور مغربی فوجوں کے انخلاء کے دوران امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون کیا۔

جنرل باجوہ نے ملک کے معاشی معاملات میں بھی بھرپور دلچسپی لی، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ملکی بجٹ کا کتنا حصہ فوج کو ملنا چاہیے۔ انہوں نے بیجنگ اور مشرق وسطیٰ کے انتہائی مشہور دورے کیے  اور وہاں سے پاکستان کے لیے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدہ کرنے میں مدد کے لیے واشنگٹن سے لابنگ بھی کی۔

جنرل باجوہ کا بطور فوجی سربراہ کردار کافی تنازعات کا شکار رہا تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

یہاں تک کہ انہوں نے مزید ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے پاکستان کے سرکردہ صنعت کاروں کو آرمی ہیڈ کوارٹرز میں ایک میٹنگ میں بلایا۔ ان کے دور میں بھارت اور پاکستان کے درمیان 2019 ء میں فضائی جھڑپیں ہوئیں، لیکن وہ کھلے عام بھارت سے بہتر تعلقات کے حامی تھے ۔ اسی سبب جب کچھ مسائل پرکشیدگی بڑھ جاتی تھی  تو اس میں اضافے سے گریز کیا جاتا تھا۔ اس کی ایک مثال  اس وقت سامنے آئی تھی جب  اس سال ایک بھارتی میزائل غلطی سے پاکستان کی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

2021 ءکے اوائل میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے کشمیر کے متنازعہ علاقے میں دہلی کے ساتھ جنگ ​​بندی کے معاہدے کی بحالی کی منظوری دی۔  تاہم ملک کے اندر انہیں بطور فوجی سربراہ  سیاسی مداخلت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاستدانوں نے  ان پر سابق کرکٹر عمران خان کو 2018 ء میں وزیر اعظم بننے میں مدد دینے کے الزامات لگائے۔ تاہم بعدازاں حالات نے پلٹہ کھایا او اس سال کے آغاز پر عمران خاننے اپنی حکومت گرانے کے لیے جنرل باجوہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ 

آرمی چیف کی تقرری کیسے کی جاتی ہے؟

سبکدوش ہونے والے فوجی سربراہ  سینئر ترین جرنیلوں کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست وزیر اعظم کو دیں گے جن میں سے ایک نام کا اگلے فوجی سربراہ کے طور پر انتخاب کیا جائے گا۔  شاذ و نادر موقعوں پر ہی کمان کی چھڑی فوج کے چار اعلیٰ ترین افسران سے باہر کسی کو دی گئی ۔ 2019 ء میں دس لاکھ سے کچھ کم  اہلکاروں کے ساتھ پاکستانی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج تھی۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال کے لیے ہوتی ہے لیکن جنرل باجوہ کی طرح  فوجی سربراہوں کو اس مدت میں اکثر توسیع مل جاتی ہے۔ جنرل باجوہ کی جگہ فوج کی سربراہی کے مضبوط امیدواروں میں کوارٹر ماسٹر جنرل اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ  لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، راولپنڈی کور کے کمانڈر  لفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد، چیف آف جنرل اسٹاف لفٹیننٹ جنرل اظہر عباس اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سربراہ لفٹیننٹ جنرل نعمان محمود شامل ہیں ۔

تعیناتی کی عالمی اہمیت

پاکستان کے آرمی چیف اپنی مشرقی سرحد پر جوہری ہتھیاروں سے لیس حریف بھارت کے ساتھ تنازعات کے خطرات کو سنبھالنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ ممکنہ عدم استحکام اور کشیدگی سے نمٹیں گے۔ ایک غیر مستحکم خطے اور تیل سے مالا مال خلیجی ممالک کے لیے اہم ترین سمندری راستے کے قریب ایک ساحلی پٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت مسلمہ ہے۔ اسی سبب واشنگٹن اور بیجنگ سمیت دنیا کے اہم ترین دارلحکومتوں کے پاکستانی فوج کے ساتھ براہ راست تعلقات ہیں۔

پاکستان میں فوج کے غلبے کو جانتے ہوئے امریکہ اور چین سمیت کئی مغربی ممالک براہ راست فوجی سربراہ سے تعلقات استوار رکھتے ہیںتصویر: Embassy of Pakistan

پاکستان  ایک ایسا ملک ہے جسے معاشی مشکلات کی وجہ سے اکثر آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکجز کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مغرب اور بھارت مخالف عسکریت پسند گروہ بھی پھیل چکے ہیں۔ ملک کے دو اہم صوبوں میں پشتون اور بلوچ نسلی علاقوں میں شورشوں کی وجہ سے داخلی سلامتی تقریباً ایک مستقل مسئلہ ہے۔ ایسے میں غیر ملکی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً  پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوال اٹھائے ہیں، خاص طور پر ایسے میں جب پاکستان کے پاس  طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھی دستیاب ہیں۔ تاہم ان تمام خطرات کے باوجود پاکستان اور اس کی فوج  اپنے جوہری ہتھیاروں کی کمانڈ اینڈ کنٹرول اور سکیورٹی پر غیر ملکیوں کے خدشات کو مسترد کرتی ہے۔

تعیناتی کی مقامی اہمیت

پاکستانی فوج پر طویل عرصے سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ملک پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے جمہوری عمل میں ہیرا پھیری کرتی ہے۔ پاکستان کے کل   19 منتخب وزرائے اعظم  میں سے ایک نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ حال ہی میں سیاست میں اپنی ماضی کی مداخلت کا اعتراف کرنے کے بعد فوج نے کہا ہے کہ وہ مزید مداخلت نہیں کرے گی۔ ایسے میں نئے سربراہ کا اس عزم پر قائم رہنا پاکستان کے جمہوری ارتقا کی کلید ہو سکتا ہے۔

پاکستان ایک اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کیونکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعظمشہباز شریف کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنے کی کوشش میں ملک گیر احتجاج کی قیادت کی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان معاشی بحران سے بچنے اور تاریخی سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، نئے آرمی چیف ممکنہ طور پر سیاسی درجہ حرارت کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ش ر ⁄ ع ت (روئٹرز)

کیا پاکستان مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا ہے؟

06:58

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں