پاکستان میں ’نا خواہش کردہ‘ نومولود بچوں کو کوڑے کے ڈھیر یا کچرا کنڈی میں پھینکنے کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے رہتے ہے، لیکن کچھ خیراتی ادارے لاوارث چھوڑ دیے جانے والے ان بچوں کی زندگی بچانے کا کام کر رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستان میں خیراتی سرگرمیوں کی انجام دہی سے ممتاز مقام حاصل کرنے والی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے مراکز کے باہر ایک گہوارہ رکھ دیا جاتا ہے۔ غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے والدین رات کے اندھیرے میں انہیں اس گہوارے میں چھوڑ جاتے ہیں جہاں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا عملہ انہیں پرورش گاہ میں پہنچا دیتا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن نے ملک کے طول و عرض میں ایسے 300 گہوارے فراہم کر رکھے ہیں۔ اس تنظیم کے بانی عبدالستار ایدھی نے ایسے بچوں کی پرورش کے لیے 'جھولے‘ کے نام سے اس سلسلے کا آغاز 1952ء میں کیا تھا۔ فاؤنڈیشن کے موجودہ سربراہ فیصل ایدھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے اس منصوبے کا مقصد اُن نومولود بچوں کی زندگیاں بچانا ہے جنہیں پہلے کوڑے کے ڈھیروں اور ویران جگہوں پر پھینک دیا جاتا تھا۔‘‘
اسی سلسلے کی پیروی کرتے ہوئے 'چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ نے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کے سب سے بڑے مرکز کراچی شہر میں 100 ایسے گہوارے رکھوائے ہیں۔ دیگر خیراتی ادارے بھی ملک کے طول و عرض میں یتیم خانے چلا رہے ہیں لیکن ان کے پاس لاوارث چھوڑ دیے جانے والے بچے اتنی تعداد میں نہیں پہنچتے جتنے ایدھی فاؤنڈیشن اور چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے پاس آتے ہیں۔
اشتہار
پاکستان میں لوگ بچوں کو کیوں پھینک دیتے ہیں؟
پاکستان میں سڑک کنارے پھینک دیے جانے والے اکثر بچے غیر ازدوجی جنسی تعلقات میں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسقاط حمل کی سہولیات تک آسان رسائی نہ ہونے کی وجی سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی کئی خواتین حاملہ ہوجاتی ہیں۔
پاکستان کے قدامت پرست سماج میں غیر شادی شدہ ماؤں کو اکثراچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لہٰذا اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی غیر ازدوجی جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو یا تو قتل کرنے یا پھر انتہائی سفاکی کے ساتھ ان کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
فیصل ایدھی نے بتایا کہ فاؤنڈیشن کے مراکز پر چھوڑے جانے والے بچوں میں 95 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غریب اور قدامت پرست گھرانے لڑکیوں کو بوجھ تصور کرتے ہیں۔ تنظیم ان بچوں کی یتیم خانے میں پرورش کرتی ہے یا شادی شدہ جوڑوں کو یہ بچے گود لینے کے لیے فراہم کردیتی ہے، لیکن ایسا کرنے سے پہلے بچوں کو گود لینے والے جوڑے کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے اور ان سے تفصیلی گفت و شنید کی جاتی ہے۔ ایدھی نے بتایا کہ جن بچوں کو گود لیا جاتا ہے ان کی بعد میں بھی نگرانی کی جاتی ہے۔
'چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ کے ایک اہلکار محمد شاہد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاوارث چھوڑ دیے جانے والے بچوں کی اکثریت شہروں کے مضافات سے ملتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے بچوں میں 70 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں اور ان میں سے آدھے مردہ حالت میں ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر نیاز محمد نے بتایا کہ نا خواہش کردہ بچوں کی پیدائش کے لیے ہسپتال کا رُخ کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور ان میں سے کچھ زچگی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہسپتال سے فرار ہو جاتی ہیں۔
لاکھوں پاکستانی بچوں کا بچپن مشقت کی نذر
بارہ جون کو منائے جانے والے ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قریب چار ملین بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن مشقت کی نذر ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان میں بچوں سے لی جانے والی مشقت
آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور قریب چالیس لاکھ بچے یا تو کوڑا چنتے ہیں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، ریستورانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر مختلف ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا پانچ سالہ عرفان مجید اپنے گیارہ سالہ بھائی کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ایک ورکشاپ مکینک کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’بچے مزدوری نہ کریں تو گزارہ کیسے ہو؟‘
چھ سالہ گزشتہ دو برس سے تنویر مشتاق اپنے والد کے ساتھ گوشت کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ تنویر کے والد عمر مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عارف والا سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باعث اسے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر ڈالنا پڑا۔ اس کے بیٹوں کی طرح دو بیٹیاں بھی مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ’’میرے بچے بھی کام نہ کریں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
’میں نے خود ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے‘
ںور احمد اپنی عمر نہں جانتا۔ راولپنڈی میں ڈھوک پراچہ کے اس رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ماں اور بھائی کے ہمراہ ویگن پر بیٹھ کر ریڈی میڈ شلوار کرتے بیچنے اسلام آباد آتا ہے۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے بھی ہیں،’’میری بڑی خواہش ہے کہ کسی عید پر میں خود بھی ایسا ہی کوئی نیا شلوار کرتا پہنوں، جیسے میں بیچتا ہوں۔‘‘ یہ کم سن مزدور روزانہ چار سو روپے تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شدید گرمی میں کمائی کا ذریعہ دستی پنکھے
پروین اختر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں اپنی پھوپھو کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کے والدین سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ اس کے چار اور بہن بھائی بھی ہیں۔ اس کی پھوپھو اسے مزدوری کرانے کے لیے سرگودھا سے اسلام آباد لائی تھی۔ پروین نے بتایا کہ یہ دستی پنکھے اس کی امی اور خالہ گاؤں سے بنا کر بھیجتی ہیں۔ پروین نے کہا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ بھی اپنے گاؤں کی دیگر بچیوں کی طرح اسکول جائے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالغ چھاؤں میں، بچے دھوپ میں
اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے والے یہ بچے دھوپ کی تپش کو نظر انداز کیے اپنی دیہاڑی کی خاطر اپنے کام میں مگن ہیں۔ مہنگائی، گھریلو غربت، والدین کی بیماری یا پیٹ کی بھوک، ان بچوں کی مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں، جو ان سے ان کا بچپن چھین کر ان کے ہاتھوں میں کوڑے کے تھیلے یا مختلف اوزار پکڑا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک روٹی کے لیے لوہے کے کئی ٹکڑے
سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش سے بے نیاز ایسے بچے کوڑے کرکٹ میں سے لوہے کے ٹکڑے، پلاسٹک اور دیگر ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں بیچ کر وہ ہر شام کچھ رقم اپنے ساتھ گھر لا جا سکیں۔ اس تصویر میں چار بچے اور دو ننھی منی بچیاں ایک میدان سے وہاں گری ہوئی لوہے کی کیلیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ سوال بہت تکلیف دہ ہو گا کہ لوہے کے کتنے ٹکڑے جمع کیے جائیں تو ایک روٹی خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
والدین سے چوڑیاں مانگنے کی عمر میں چوڑیاں بیچنے والی
اس ننھی سی بچی نے اپنا نام فیروزاں (فیروزہ) بتایا اور اسے چوڑیاں بیچتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ فیروزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے اس کی والدہ گھر گھر جا کر چوڑیاں بیچتی تھی لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اب کراچی کمپنی نامی علاقے میں بس اڈے کے قریب فیروزہ اور اس کی والدہ زمین پر چادر بچھا کر چوڑیاں بیچتی ہیں۔ باقی مہینوں کی نسبت عید سے پہلے رمضان میں اس ماں بیٹی کی روزانہ آمدنی زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’اب ڈر نہیں لگتا‘
سات سالہ عمر خلیل ایک ایسی دکان پر پھل بیچتا ہے، جو اس کا والد ہر روز زمین پر لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے اس کا والد جب اسے دکان پر چھوڑ کر اکثر پھل لینے منڈی چلا جاتا تھا، تو اسے بہت ڈر لگتا تھا۔ ’’اب مجھے اکیلے دکان چلانے کی عادت ہو گئی ہے اور ڈر بالکل نہیں لگتا۔‘‘ محض سات برس کی عمر میں حالات نے اس بچے کو ایسا دکاندار بنا دیا ہے، جو اکیلا بھی بڑی خود اعتمادی سے گاہکوں سے لین دین کر لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول کے بعد وین پر پھل فروشی
چودہ سالہ محمد رفیق آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا والد ایک وین پر منڈی سے کوئی نہ کوئی پھل لا کر بیچتا ہے۔ شام کے وقت محمد رفیق اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے لیکن ڈاکٹری کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ رفیق کے والد نے کہا، ’’میں اپنے بیٹے کو ضرور ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اس کا خواب ہر صورت میں پورا کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کی مائیں در بدر
گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر کوڑے کا تھیلا کندھوں پر ڈالے یہ معصوم بچیاں دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتی ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لگی، کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہیں سے کچھ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ آگے چل پڑیں۔ ان تینوں بچیوں کا تعلق اسلام آباد کے مضافات میں ایک کچی بستی سے ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ سوچ ہی تکلیف دینے لگتی ہے کہ یہی بچیاں آنے والے کل کی مائیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کام ٹھیک کرو، ورنہ دیہاڑی ضبط‘
موٹر مکینک کا کام سیکھنے والے گیارہ سالہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جس دکان پر وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، وہ ورکشاپ اس کے ماموں کی ہے۔ اس کا والد اس کی والدہ کو طلاق دے چکا ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر رہتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’ماموں بہت سخت آدمی ہیں، اگر کبھی کام ٹھیک نہ کروں تو مار پڑتی ہے۔ اس روز دیہاڑی کے سو روپے بھی نہیں ملتے۔ ایسی صورت میں ہم بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کھلونے خواب ہیں اور بھوک سچ
آئی نائن سیکٹر میں عید کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگا کر یا زمین پر کپڑا بچھا کر مختلف چیزیں بیچنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے خوانچہ فروشوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر زندگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شدید گرمی میں یہ بچے ایسے گاہکوں کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ان سے بس کچھ نہ کچھ خرید لیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساری دنیا ایک ڈبے میں
آٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گتے کے ایک ڈبے میں بند دنیا سر پر اٹھائے پہلے جگہ جگہ گھومتا ہے۔ اب اسے راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں ہر روز ایک فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چیزیں بیچتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ دو تین مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ محمد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچی بستی میں رہتے ہیں۔ میری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ میرے ابو اخبار بیچتے ہیں۔ ہم سب مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
کیا بچوں کو چھوڑ دینے والے والدین کو سزا ہو سکتی ہے؟
اپنے بچوں کو رد کرنے کا عمل پاکستان کے قانون میں قابل تعزیر جرم ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی رو سے اگر کوئی باپ، ماں یا سرپرست 12 برس سے کم عمر بچے کو اپنے سایہء عافیت سے محروم کرے تو اسے سات برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ بات قانون دان ندیم فرحت گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتائی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر ایسا کرنے کے نتیجے میں بچے کی جان چلی جاتی ہے تو والدین کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد میں تعینات ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ لوگ بچوں کو لاوارث پھینکنے کے بجائے خیراتی ادارے کے سپرد کر دیا جائے۔ رد کیے گئے کسی بھی بچے کی موت قتل عمد (سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل) کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا ایسے معاملات میں پولیس قانونی کارروائی کی پابند ہوتی ہے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں قصور وار کا پتہ نہیں چل پاتا اور مجرم سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
گہوارے فراہم کرنے پر دینی علماء کیا کہتے ہیں؟
پاکستان میں دینی تنظیمیں ایسےبچوں کے لیے گہوارےفراہم کرنے کے خلاف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جھولے لگا دینے سے اس مسئلے کا جڑ سے خاتمہ نہیں ہوتا۔ امام مسجد محمد کامل نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل کی روک تھام کے لیے پورے معاشرے کی اصلاح ضروری ہے۔ اُن کا کہنا تھا ''ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے اس بات کا درست تعین کرلیا جائے کہ لوگ کیوں بچوں کو پھینک جاتے ہیں اور پھر محض ناخواہش کردہ بچوں کو گود لینے کی بجائے اصلاح احوال کی طرف دھیان دیا جائے۔‘‘
دوسری جانب پارلیمنٹ اور حکومت کی دینی معاملات پر رہنمائی کرنے والے ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا ماننا ہے کہ رد کیے گئے بچوں کے قتل یا انہیں ضائع کر دینے سے کہیں بہتر یہ ہے انہیں جھولے میں ڈال دیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بچے اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتے۔ لہٰذا اُن کے اس دنیا میں آنے کے ذمہ دار والدین ہیں نہ کہ وہ بچے خود۔ انہوں نے مزید کہا، ''جس طرح بغیر نکاح جنسی تعلقات اسلام میں حرام ہیں، اسی طرح کسی کو قتل کرنا بھی حرام ہے۔‘‘