1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں نیشنل فائر وال کی تنصیب، آزادی اظہار خطرے میں؟

17 جون 2024

ماہرین کے مطابق اس حکومتی اقدام سے عام شہریوں کی انتہائی نجی نوعیت کی اہم معلومات ریاستی اداروں کی دسترس میں آ سکتی ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنما فائر وال کی تنصیب پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

  پاکستان میں حکومت کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ گیٹ وے پر 
 فائر وال کی تنصیب سے متعلق خبروں پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں
پاکستان میں حکومت کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ گیٹ وے پر فائر وال کی تنصیب سے متعلق خبروں پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیںتصویر: Andreas Haas/imago images

پاکستان میں حکومت کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ گیٹ وے پر فائر وال کی تنصیب سے متعلق خبروں پر آزادی اظہار کے حامی حلقے سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق فائر وال کی تنصیب کے بعد حکومت کے لیے 'متنازعہ‘ مواد کو حذف کرنے اور اسے اپ لوڈ کرنے والے صارفین کی شناخت کرنا قدرےآسان ہو گیا ہے۔

پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سے وابستہ ایک اعلیٰ سطحی ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی ایک دوست ملک نے پاکستان کو فراہم کی ہے اور اسے مشرق وسطیٰ کے ایک عرب ملک میں پہلے ہی کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ذریعے کے بقول فائر وال لگانے کے دو مقاصد ہیں: ایک نامناسب مواد اپ لوڈ کرنے والوں کی شناخت کرنا اور دوسرا ایسے مواد کی عام لوگوں تک رسائی محدود کرنا۔

ماہرین کے بقول فائروال کی تنصیب سے شہریوں کا پرائیوسی کا بنیادی حق ختم ہو کر رہ جائے گاتصویر: Andriy Popov/PantherMedia/IMAGO

پاکستان میں فائر وال کے حوالے سے تفصیلات سامنے لانے والے ایک صحافی عمر چیمہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کیے جانے والے مواد کو فلٹر کرنے کی خاطر لگائی گئی فائر وال کی تنصیب کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے تو یہ بات حیران کن بات ہو گی کہ اگر کوئی انہیں بتائے کہ فائر وال نصب نہیں کی گئی۔ تاہم حکومت نے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

آزادی اظہار پابندیوں کی زد میں

پاکستان میں مین اسٹریم میڈیا پر عائد غیر اعلانیہ پابندیوں کے بعد سوشل میڈیا ان خبروں کو سامنے لانے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے، جنہیں حکومت دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ فائر وال کے حوالے سے نئی پیش رفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب ملک میں پچھلے چار ماہ سے سابقہ ٹوئٹر اور موجودہ ایکس تک رسائی بند ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہتک عزت کے متنازعہ قانون پر صحافتی تنظیمیں احتجاج بھی کر رہی ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین کے خدشات

پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نیشنل فائر وال کی تنصیب سے معلومات تک رسائی، آزادی اظہار اور انفرادی پرائیویسی جیسے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس فائر وال سے ایک عام شہری کی بینک معلومات، تنخواہ، صحت سے متعلق تفصیلات یہاں تک کہ ای میل وغیرہ سے لےکر  پاس ورڈز تک ریاستی اداروں کی دسترس میں آ سکتے ہیں۔

سائبر امور کے قانونی پہلوؤں پر نگاہ رکھنے والے وکیل آفتاب عالم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ فائروال کی تنصیب سے شہریوں کا پرائیوسی کا بنیادی حق ختم ہو کر رہ جائے گا۔  انہوں نے کہا، ''اس حکومتی اقدام کے نتیجے میں صارفین کی ساری نجی معلومات تک ریاست کی رسائی ممکن ہو جائے گی اور کسی بھی شہری کو کسی بھی ایسے مواد کو اپ لوڈ کرنے کے ضمن میں سزا کا مستحق ٹھہرایا جا سکے گا، جسے ریاست قابل اعتراض گردانے گی۔‘‘

سائبر امور کے قانونی پہلوؤں پر نگاہ رکھنے والے وکیل آفتاب عالمتصویر: Privat

 اس دوران بظاہر  آزادی اظہار کی علمبردار اور ملک کی دو  بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت شہری آزادیوں پر حال ہی میں عائد کردہ قدغنوں کے خلاف کوئی دوٹوک یا مؤثر بیان دینے سے ہچکچا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو تو مختلف تاویلوں کے ساتھ آزادی اظہار کے منافی اقدامات کی حمایت بھی کرنا پڑ رہی ہے۔ پنجاب میں ہتک عزت کا نیا اور متنازعہ قانون اس کی ایک مثال ہے۔  

وی پی این بھی زد میں آ سکتا ہے؟

صحافی عمر چیمہ نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ آنے والے دنوں میں وی پی این ( ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے اور اسے استعمال کرنے والے شہریوں کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)  سے اپنے آپ کو رجسٹر کروانا پڑ سکتا ہے۔ خیال رہے کہ وی پی این کا استعمال کرتے ہوئے صارفین ان ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، جنہیں حکومتی پابندیوں کا سامنا ہو۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں آفتاب عالم نے بتایا کہ پاکستانی قانون کے تحت بغیر رجسٹریشن کرائے وی پی این استعمال کرنے والے شہریوں کو سزا ہو سکتی ہے۔ بینکنگ سیکٹر اور کارپوریٹ اداروں نے وی پی این کے استعمال کے لیے اپنے آپ کو پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹر کروایا ہوتا ہے۔

فائر وال لگانا اچھا اقدام نہیں؟

 مبصرین کا خیال ہے کہ غلط حکومتی پالیسیوں سے ستائے ہوئے عوام کے رد عمل کو فائر وال کے ذیعے روکنے کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جو عوام میں بے چینی اور ردعمل پیدا کرتے ہیں۔ آفتاب عالم ایڈووکیٹ کے بقول، ''اگر موٹر وے پر کسی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ایسے حادثوں کو روکنے کا حل موٹر وے بند کر دینا نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ڈرائیوروں کو ٹریننگ دینا چاہیے، عوامی آگہی میں اضافہ کرنا چاہیے اور ٹریفک ڈسپلن کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ حادثات کا باعث بننے والے اسباب کی روک تھام بھی کی جانا چاہیے۔‘‘

ان کے مطابق پاکستان میں پہلے ہی 'غیرمناسب‘ مواد کی حامل ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے فائر والز استعمال کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''حکومت نے اب تک ساڑھے بارہ لاکھ کے قریب ویب سائٹس بند کر رکھی ہیں ان میں سے نو لاکھ اسی ہزار سائٹس ایسی ہیں جن پر فحش اور اخلاقی اعتبار سے نامناسب مواد موجود ہے جبکہ باقی تین لاکھ ویب سائٹس میں سیاسی اور خبری مواد والی سائٹس بھی شامل ہیں۔‘‘

صحافتی تنظیمیں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہتک عزت کے متنازعہ قانون پر احتجاج بھی کر رہی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/R.Tabassum

سزا صرف مجرم کو ملنا چاہیے

آفتاب عالم کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا ایک تعلیمی اور مثبت استعمال بھی ہے۔ اس پر قدغنیں لگانے سے ان لوگوں کا نقصان ہو گا، جو اس کا مثبت استعمال کر رہے ہیں۔ ''جنرل پرویز مشرف کے دور میں جوتا لہرانے کی ایک ویڈیو سامنے آنے پر یو ٹیوب سمیت کئی ایسی ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا تھا، جن میں لفظ جوتے کا ذکر تھا ۔اس صورت حال میں قصور کے ایک نوجوان کا کاروبار بھی ٹھپ ہو گیا تھا، جو جوتوں کا آن لائن کاروبار کر رہا تھا۔ لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کا شعور دینا چاہیے لیکن ان کی علم تک رسائی کو روکنا مناسب نہیں ہے۔‘‘

صحافی عمر چیمہ کہتے ہیں کہ فائر وال کے ایشو کو سمجھنے کے لیے سارے سٹیک ہولڈرز کا نقطہ نظر سامنے رکھنا ہوگا۔ میڈیا کی آزادی کی حمایت ضرور ہونا چاہیے لیکن میڈیا کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ ان کی صفوں میں وہ کون لوگ ہیں، جو صحافیوں کے روپ میں ریڈ لائن کراس کر کے فائر والز لگوانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے بقول ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ نامور صحافی بھی حقائق کی چھان بین کیے بغیر فیک سٹوری سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ عمر چیمہ کا مزید کہنا تھا، ''دوسری طرف حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے والے پراپیگنڈے اور فیک نیوز کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت کو بھی یہ بات یاد رکھنا  ہے کہ وہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو نہیں ہانک سکتی۔ اس کو پروفیشنل صحافیوں پر قدغنیں لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘

کیا فائر وال کا تجربہ کامیاب ہو سکتا ہے؟

عمر چیمہ بتاتے ہیں کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ روس ، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مثالوں کو سامنے رکھ کر فائر وال کی کامیابی کی امید لگا رہے ہیں۔ ان کو سو فیصد کامیابی نہ بھی ملے، وہ پھر بھی کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل کر ہی لیں گے۔ جیسے پاکستان میں چند ماہ قبل ایکس (ٹوئٹر) پر پابندی لگائے جانے کے بعد پاکستان میں ایکس صارفین کی تعداد اب نصف کے قریب رہ گئی ہے۔ لیکن آفتاب عالم کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی میں مسلسل تبدیلیاں اور ترقی ہوتی رہتی ہیں۔ مستقبل میں فائر والز کا توڑ تلاش کرنے والے بھی اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل سامنے لے کر آ سکتے ہیں۔ ''پاکستان میں لوگ آزادی رائے کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ ہیں، اس لیے یہاں آزادی اظہار پر قدغنیں لگانا اور انہیں برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘

ناقدین کی جانب سے ایسے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ زور اور زبردستی کے ساتھ حکومت عوامی رد عمل کو کس حد تک روک سکے گی۔ مشکلات میں گھری ہوئی حکومت عدلیہ کی موجودگی میں آخر کتنے افراد کو جیل بھجوا سکتی ہے؟ اتنے لوگوں کو جیل بھیجنے پر عوامی ردعمل سے کیسے نمٹے گی؟ ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے کے بعد کہیں یہ فائر وال ان جگہوں کا کھوج تو نہیں لگانے لگ جائے گی، جہاں سے جمہوریت اور سویلین بالا دستی کے خلاف مہمات چلائی جاتی رہی ہیں۔

سینئر صحافی خالد فاروقی کہتے ہیں کہ آزادی اظہار پر پابندیوں سے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سوشل میڈیا شتر بے مہار بنا رہے۔ صورتحال کی بہتری کے لیے سب کو ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانا پڑے گا۔ اس لیے تمام سٹیک ہولڈرز آپس میں بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالیں۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا کی ابتر صورتحال کیوں؟

07:57

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں