پاکستان میں وی او اے کی ویب سائٹس بلاک، کئی حلقوں میں تشویش
12 دسمبر 2018صحافتی حلقے اس پابندی کو بہت تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے خیال میں آنے والے وقتوں میں اس طرح کی مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں کچھ عرصے سے اس بات کی شکایت کرتی چلی آ رہی ہیں کہ ملک میں آزادی اظہار اور اظہار رائے کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔
معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں ڈان لیکس کے بعدسے ملک میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ملک کے مقتدر حلقے یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ہمیں hybrid war کا سامنا ہے۔ تو جنگ میں تو آزادیاں کم کی جاتی ہیں۔ ڈان لیکس کے بعد سے مقتدر حلقے یہ اشارے بھی دے رہے تھے کہ وہ ریاستی اداروں پر کوئی تنقید برداشت نہیں کریں گے۔ پہلے انہوں نے سیاسی جماعتوں اور مقامی ذرائع ابلاغ کو طابع بنایا اور اب غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔ عمران خان نے حال ہی میں ٹوئٹر کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی ہے۔ تو بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر بھی پابندیاں لگ جائیں۔‘‘
لیکن کچھ صحافیوں کے خیال میں وائس آف امریکا کی اردو اور پشتو سروسز کی رپورٹنگ متنازعہ بھی رہی ہے۔ ان کے خیال میں اس رپورٹنگ میں پاکستان مخالف عنصر بہت غالب رہا ہے۔ خیبر پشتو ٹی وی سے وابستہ حنیف رحمان کا کہنا ہے کہ وائس آف امریکا کی ان دونوں سروسز سے پاکستان کے کئی حلقوں کو شکایات رہی ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی اداروں کو یہ شکایت رہی ہے کہ یہ سروسز پاکستان مخالف جذبات کو ابھارنے میں سرگرم رہی ہیں اور پختون اور بلوچ قوم پرستوں کو پاکستان کے حوالے سے گمراہ کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان میں ڈرون حملہ ہوتا ہے یا باراتیوں پر بمباری کی جاتی ہے یا بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں، تو پاکستانی حکام کے مطابق وی او اے صرف اس کی معمولی سی رپورٹنگ کرتی ہے۔ لیکن اگر اس طرح کا کوئی واقعہ پاکستان میں ہو جائے تو اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ تو اسلام آباد کے مقتدر حلقوں میں خیال یہ ہے کہ وی او اے کی رپورٹنگ متعصبانہ، جانبدارانہ، فوج مخالف اور پاکستان مخالف ہے۔‘‘
پاکستان میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس طرح پابندیاں لگانے سے اسلام آباد کے لیے عالمی سطح پر مسائل بڑھ بھی سکتے ہیں۔ امریکا نے پاکستان کو پہلے ہی مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ حنیف رحمان کے خیال میں بھی اس طرح کی پابندیاں مسئلے کا مناسب حل نہیں ہیں، ’’اگر پاکستان کا خیال ہے کہ ان سروسز میں کچھ لوگ افغان نواز ہیں یا پاکستان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں یا پھر صحافتی اقدار کا لحاظ نہیں کرتے، تو میرے خیال میں پاکستان کو ان سروسز کے متعلقہ اداروں سے باضابطہ شکایت کرنا چاہیے اور ان شکایات کے ازالے کے لیے انہیں وقت بھی دینا چاہیے۔ اس طرح کی پابندیوں سے کچھ لوگ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کریں گے، جو ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے وائس آف امریکا کے اسلام آباد آفس، واشنگٹن آفس اور پانچ مختلف کارکنوں سے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس مسئلے پر گفتگو کرنے سے انکار کر دیا۔ اسلام آباد آفس کے ایک کارکن نے فون نمبر لے کر کہا، ’’ہم ابھی آپ کو کال بیک کرتے ہیں۔‘‘
واشنگٹن میں وی او اے کی اردو سروس کے ایک کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’ہمیں ان پابندیوں کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، جن کے باعث ہمارے لاکھوں قارئین پریشان ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ حکومت ہماری رپورٹنگ سے ناراض ہے۔‘‘
جب ڈی ڈبلیو نے وی او اے کے واشنگٹن آفس سے دوبارہ رابطہ کیا، تو پشتو سروس کے ایک کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کہ شرط پر اپنے ادارے کے اہلکاروں کے مندرجہ ذیل بیانات ڈی ڈبلیو کو بھیجے۔ ان بیانات میں وائس آف امریکا کی دیوا پشتو سروس کے سربراہ نفیس ٹکر نے کہا، ’’وی او اے نے صحافتی نقطہء نظر سے پی ٹی ایم کی کوریج غیر جانبدارانہ انداز میں کی۔ پی ٹی ایم کی کوریج کے ساتھ ہم ٹوئٹر پر جاری کیے جانے والے وزراء اور حکومتی اہلکاروں کے بیانات کو بھی جگہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی ایم کی کوریج کو متوازن بنانے کے لیے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آرکی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیانات کو بھی کوریج دی جاتی ہے۔‘‘
وی او اے اردو سروس کے سربراہ کوکب فرشوری نے انہی میں سے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’پی ٹی ایم کی سٹوری ہمارے ناظرین کے لیے اہم تھی۔ لیکن یہ بات غلط ہے کہ یہ کوریج متعصبانہ تھی۔ ہم باقاعدگی سے حکومتی وزراء اور حکام کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔ فوج کے ترجمان کی طرف سے حال ہی میں کی گئی ایک پریس کانفرنس ہماری لیڈ سٹوری تھی۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ ہماری کوریج متوازن نہیں ہے۔‘‘