1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت، شوشہ کس نے چھوڑا؟

30 دسمبر 2022

تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت کا شوشہ چھوڑ کر عمران کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے سے باز رہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ اگلے لائحہ عمل کے لیے عوامی رد عمل جاننے کا ایک ذریعہ ہے۔

Wahlen in Pakistan I  Bilawal Bhutto Zardari
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان میں طویل مدت کے لیے قائم کی جانے والی ٹیکنوکریٹس کی ممکنہ عبوری حکومت پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اگرچہ سنجیدہ تجزیہ نگار اس تجویز کو غیر آئینی اور ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر بڑھتے ہوئے شورغل سے لگتا ہے سیاست کی دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم کہتے ہیں کہ کسی منتخب حکومت کی موجودگی میں طویل المدتی عبوری حکومت کا قیام ایک غیر آئینی اقدام ہوگا اور کوئی عدالت اس کا دفاع نہیں کر سکے گی۔ ان کے نزدیک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی سیاسی اتفاق رائے کے بغیر کسی ایسے اقدام کی حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ''یہ محض آپس میں دست و گریباں سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں بات چیت کرکے مسائل کے حل کی طرف آئیں۔ وگرنہ دوسرے آپشنز بھی زیر غور لائے جا سکتے ہیں‘‘۔

امتیاز عالم کو یقین ہے کہ اس طرح کی عبوری حکومت کو سیاسی جماعتوں اور عوام سمیت کوئی نہیں مانے گا۔آئی ایم ایف بھی ایسی حکومت سے بات چیت نہیں کرے گا۔ ان کے خیال میں صرف مارشل لا کے ذریعے ہی اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے اور اس وقت ملک میں مارشل لا لگنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ تا سیاسی نااہلی، عمران خان کا سیاسی سفر

05:47

This browser does not support the video element.

امتیاز عالم کے بقول ایم کیو ایم کو کون اکھٹا کر رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کس نے تحلیل نہیں ہونے دی۔ عمران خان اپنے اوپر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کروا سکے۔ پی ٹی آئی کے استعفے کیوں نہیں منظور ہو رہے۔ '' یہ سارے خاموش پیغامات ہیں کہ سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی بجائے سسٹم کے اندر رہ کر ملکی مسائل حل کیے جائیں۔ جو لوگ ان میسجز کو سمجھتے ہیں ان کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی تجویز حیرانگی کا باعث نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ امتیاز عالم کے بقول اب صرف جنرل الیکشن ہوں گے اور اگر سیاست دان ان انتخابات کے حوالے سے متفق نہ ہو سکے تو پھر اگلے الیکشنز بھی متنازعہ ہو جائیں گے اور نیا وزیراعظم بھی معاشی مسائل نہیں حل کر پائے گا۔

معروف تجزیہ کار نسیم زہرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی تجویز میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست میں ماضی کی طرح کی مداخلت ممکن نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماوں کی طرف سے سیاسی عزم کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔'' اصل میں پاکستان کی معیشت کی خرابی کے اثرات دفاعی امور پر بھی پڑتے ہیں اور معیشت خراب ہو تو اسٹیبلشمنٹ بھی متحرک ہو جاتی ہے پھر شبر زیدی اور حفیظ پاشا سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو میڈیا میں تاثر دیا جا رہا ہے‘‘۔

نسیم زہرہ کی رائے میں اگر سیاست دانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر نئے انتخابات کے بعد بھی سیاسی عدم استحکام کو ختم نہیں کیا جا سکے گا۔

دفاعی تجزیہ کار برگیڈئیر(ر) فارووق حمید خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا آئیڈیا بہت پرانا ہے جب بھی حکومت وقت ناکام ہوتی ہے اور معاشی و سیاسی بحران بڑھتا ہے تو ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں۔

پاکستانی وزير خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ خصوصی گفتگو

07:58

This browser does not support the video element.

فارووق حمید کہتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے مشکل فیصلوں کا ملبہ عبوری حکومت پر گرانے کے لیے عبوری حکومت کا شوشہ چھوڑ رہی ہے۔ یاد رہے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کہہ چکے ہیں کہ ایک حکومتی شخصیت نے انہیں عبوری حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ معاشی ماہر شبر زیدی اور عمران خان بھی ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا عندیہ دے چکے ہیں۔ فاروق حمید کہتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ نے ایسی حکومت کی اجازت دینے کے لیے قانون سازی کی تو یہ این آر ٹو جیسی قانون سازی سمجھی جائے گی۔

فاروق حمید کے مطابق ٹیکنوکریٹس کی حکومت ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی ملکی بحران کے خاتمے کے لیے فوری عام انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو ان کی کامیابی کا راستہ روکنے کی سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فاروق حمید کہتے ہیں کہ ٹیکنوکریٹس کے لئے جن افراد کے نام سامنے آ رہے ہیں وہ وہی بار بار آزمائی ہوئی وہی شخصیات ہیں جو ماضی میں بھی ایسے سیٹ اپ کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ ان کے بقول اگر عبوری سیٹ اپ لانا ہی ہے تو اس میں اچھی شہرت کی حامل ایسی شخصیات کو شامل کیا جانا چاہیے جو ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

سینئر صحافی نصرت جاوید نے اس موضوع پر لکھے گئے اپنے ایک حالیہ کالم میں اسلام آباد میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی منسوخی پر ہونے والے کمزور عوامی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے عوام خود کو آج بھی'رعایا‘ ہی تصور کرتے ہیں جو'سلطانی مزاج‘ کی مزاحمت کوآمادہ نہیں۔ ایسے عالم میں طویل المدت ٹیکنوکریٹ بندوبست کو رد کرنے کی ہمت مجھ میں تو نہیں۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں