پاکستان میں پائیدار امن کی ترویج میں فن و ادب کا کردار
12 ستمبر 2021دنیا کے سبھی معاشروں میں دیرپا بنیادوں پر داخلی امن و استحکام کو یقینی بنانے میں سماجی انصاف، قانون کی حکمرانی اور عام شہریوں میں معاشرتی تحفظ کا احساس کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن دیرپا بنیادوں پر امن و سلامتی کے حصول میں آرٹ اور ادب کے کردار سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فن و ادب قارئین اور ناظرین کے طور پر عام شہریوں کے ذہنی اور جمالیاتی احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور انہیں جذباتی طور پر اپنے تفکرات اور پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بھی آرٹ اور لٹریچر امن و سلامتی کی ترویج اور سماجی ترقی کے عمل کو اس حد تک آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جن کے وہ اہل ہیں۔ اس سوال کا ایک واضح جواب موجود تو ہے مگر خود اس جواب کے ساتھ بھی بہت سے سوالات جڑے ہوئے ہیں۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ فن و ادب قیام امن میں کس طرح معاون ہوتے ہیں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امن کیا ہے؟ امن بنیادی طور پر تشدد کی عدم موجودگی کا نام ہے، یعنی تشدد، خوف اور جنگ کا نہ ہونا۔ حصول امن میں فن و ادب معاونت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ تنازعات کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
امن آخر ضروری کیوں ہے؟ امن کی ضرورت اس لیے ہے کہ زمین پر انسانی آبادی لاتعداد قومی، نسلی اور لسانی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ امن وہ واحد ذریعہ ہے، جو سب کو جینے کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے اور ہر کسی کو اپنی اپنی مختلف رائے رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔
دونوں عالمی جنگوں میں مجموعی طور پر کروڑوں انسان مارے گئے تھے۔ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کےبعد سے اب تک کے چھہتر برسوں میں بھی خونریزی اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہا، حالانکہ یہ عرصہ کسی عالمی جنگ کا دور نہیں تھا۔ لیکن یہ قتل و غارت اس لیے جاری رہی کہ یہ دور بھی تشدد ہی کا دور تھا۔ تنازعات جاری رہے اور انسان مرتے رہے۔
عدم برداشت حصول امن کی راہ میں ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو فن و ادب کی ترویج سے حل کیا جاسکتا ہے۔ فن و ادب عدم برداشت کا تدارک کرتے اور باہمی برداشت پیدا کرتے ہیں۔ معاشرے میں انفرادی سطح پربرداشت کا مطلب ہے دوسروں کی بات سننا، ان کی رائے کو اہمیت دینا، ان کے نقطہ نگاہ کو سمجھنا۔ برداشت کےاسی رویے کی مدد سے انسان صرف اپنی ذات پر توجہ دینے اور ہمیشہ صرف خود کو ہی حق بجانب سمجھنے کے بجائے جزہوتے ہوئے ایک بڑے سماجی کل سے مل جاتا ہے۔
امن وہ راستہ ہے جو سب کو تمام حقوق اور سب کو بیک وقت جینے کا موقع دیتا ہے۔ جیو اور جینے دو کے اصول کوممکن بناتا ہے۔ اسی لیے دنیا کی سب سے بڑی ترجیح امن ہے۔
فن و ادب قیام امن میں کس طرح معاون ثابت ہوتے ہیں؟ پہلے آرٹ کی بات کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر ایک شخصی اظہاریہ ہوتا ہے۔ اس کی کئی شکلیں اور روپ ہیں۔ وہ شاعری کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور پینٹنگز کی شکل میں بھی۔ پرفارمنگ آرٹ کی شکل میں بھی اور ویژوئل آرٹس کی شکل میں بھی، جس میں ڈرائنگ، پینٹنگ، مجسمہ سازی اور تصویر کشی وٖغیرہ شامل ہیں۔ ایپلائیڈ آرٹ میں فیشن ڈیزائننگ، آرکیٹیکچر، انٹیریئر ڈیزائننگ وغیرہ کو گنا جاتا ہے۔
فن تعمیرات اور انٹیریئر ڈیزائننگ کی مثال لے لیں، تو آرٹ کے ذریعے انسان اپنی رہائش کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کو خوبصورت بنا سکتا ہے۔ یہ خوبصورتی اسے آرٹ ہی سکھاتا ہے۔ شور ہمیں پسند نہیں، لیکن موسیقی پسند ہوتی ہے۔ وہ بھی ایک شور ہے لیکن سر، تال، لے اور ردھم کی وجہ سے ہمیں پسند آتی ہے۔
فن ہمیشہ دل سے ہوتا ہے دماغ سے نہیں۔ جب اچھی چیزیں دل میں ہوتی ہیں، تو ان کا عملی نتیجہ آرٹ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جو متاثرکن بھی ہوتا ہے اور سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ ایک فوٹوگرافر اپنی ایک تصویر کے ذریعے پوری کہانی بیان کر دیتا ہے۔ تصویر بولتی ہے، دل کو چھوتی ہے اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
فن و ادب اپنی ذات سے آگے نکل کر دوسروں کے مفاد کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور نرگسیت سےنکلنے میں مدد دیتے ہیں، تاکہ دوسروں میں بھی دلچسپی لی جائے، ان سے ہمدردی کی جائے اور ان کی خوشی میں خوشی محسوس کی جائے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کوئی خوشی سے رقص کر رہا ہوتا ہے، تو ہم خود اگر رقص کرنا شروع نہ بھی کریں تو اس رقص کو دیکھ کر ہی خوش ہونے لگتے ہیں۔
اگر پیرس میں مونا لیزا کے پورٹریٹ کو دیکھنے سالانہ چھ ملین انسان پوری دنیا سے فرانس جاتے ہیں، تو ہم نے یہ کیوں کبھی نہیں دیکھا کہ اتنی ہی تعداد میں لوگ کسی ڈکٹیٹر کی قبر پر بھی جائیں۔ اس کا سبب یہ ہے ڈکٹیٹر خود پسند اور جابر ہوتے ہیں اور آرٹ جمالیاتی تسکین کا سبب بننے والی تخلیق۔
جہاں تک ادب کا تعلق ہے تو وہ ہمیں ہمیشہ زندگی کی اصل سے بڑی تصویر دکھاتا ہے۔ آرٹ اور لٹریچر وقت کےقیدی نہیں ہوتے، وہ ہر دور اور ہر وقت کے لیے ہو سکتے ہیں۔ حقیقی آرٹ غیر جانبدار ہوتا ہے، اسی لیے وہ تفرقاتکو مٹا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین لاکھ سیاسی اختلافات سہی، لیکن فن و ادب دونوں کے ایک دوسرےکے ہاں پسند کیے جاتے ہیں۔ آرٹ باہمی مشاورت کی ترویج کرتا ہے، اور اس طرح حصول امن اور ترقی میںمعاونت کرتا ہے۔
ادب انسانی نسلوں کے مابین ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ یہ پل کا کام کرتا ہے۔ جو لوگ صدیوں پہلے زندہ تھے، ہم ان کی تصانیف آج بھی پڑھتے ہیں۔ شیکسپئیر ، ٹیگور اور منٹو کی تخلیقات پوری دنیا کے لیے ہیں، صرف ان زبانوں کے قارئین کے لیے نہیں، جن زبانوں میں ان شخصیات نے اپنی تخلیقات لکھیں۔ کیا یہ امن اور مفاہمت کی جانب ایک بڑا قدم نہیں؟ ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ فن و ادب ہمیں عالمگیریت بھی سکھاتے ہیں۔
بنیادی طور پر ہر وہ تخلیق جو انسان کو خوشی دیتی ہے، وہ امن میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ ہر وہ تخریب جو انسانوں کو تکلیف دیتی ہے، امن میں خرابی کا باعث بنتی ہے۔ فکری سطح پر دیکھا جائے تو ہر وہ آرٹ، ہر وہ فن، ہر وہ ادب جوانسانوں کو امید دلاتا ہے، ان میں زندہ رہنے کی خواہش پیدا کرتا ہے، وہ امن کی خواہش کو تقویت دیتا ہے اور اسکے حصول میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہر وہ واقعہ جو انسانوں کو دکھ، تکلیف اور اذیت دیتا ہے، وہامن کے لیے خطرہ ہے۔
ہم کہیں بھی رہتے ہوں۔ بات یورپ، آسڑیلیا، شمالی امریکا، جنوبی امریکہ، ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی علاقے کی ہو، ہرمعاشرہ اپنی اکائی کے طور پر انسانوں سے ہی بنا ہوا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اسی وقت اکثریتی طور پر صحیح طرح کام کرتاہے، جب وہ قانون پسند، امن پسند، اور صلح پسند ہوتا ہے۔ اگر کسی معاشرے کی اجتماعی پہچان اس کے برعکس ہو، تو وہاں امن کمزور پڑنے لگتا اور انتشار پھیلنے لگتا ہے۔ فن اور ادب، جو ایک انسان کے محسوسات کو دوسروںتک پہنچاتے ہیں، سماجی انتشار کی حوصلہ شکنی اور برداشت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے امن کی ترویج کرتے ہیں۔