پاکستان میں پٹرول کی قلت پر اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ
9 فروری 2023لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں پٹرول کی قلت کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اس دوران بعض مقامات پر پٹرول پمپ بند کر دیے گئے ہیں جبکہ کئی جگہوں پر پٹرول کے حصول کے لیے صارفین کی لمبی قطاریں نظر آ رہی ہیں۔ لاہور میں جوہر ٹاون اور گلبرگ کے بعض علاقوں میں پٹرول کی زخیرہ اندوزی شروع کر دی گئی ہے۔ ایک مقامی رہائشی احمد سعید کے بقول موٹر سائیکل والوں کو پانچ سو روپے اور گاڑی والوں کو ایک ہزار روپے تک کا پٹرول دیا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' ایک تو پٹرول بہت مہنگا ہے دوسرے بار بار لائن میں لگ کر پٹرول خریدنے سے وقت بھی ضائع ہو رہا ہے حکومت کو چاہیے کہ اس مئسلے کا کوئی حل نکالے۔ ‘‘
پٹرول کی ذخیرہ اندوزی
اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پٹرول کی قلت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاشی حکام کی بات چیت کے نتیجے میں پٹرول کی قیمت میں بھاری اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ اس لیے پٹرول کی سپلائی میں کمی کی جا رہی ہے دوسری طرف کچھ لوگ پٹرول کی ذخیرہ اندوزی میں بھی ملوث ہیں، اس وجہ سے پٹرول کی قلت جاری ہے۔
یاد رہے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پنجاب حکومت کو پٹرول کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ اس پر پولیس نے گذشتہ روز متعدد مقامات پر چھاپے بھی مارے تھے۔ شیخوپورہ اور قصور کے علاقوں سے ذخیرہ کیے گئے پٹرول کی بھاری مقدار برآمد بھی کی گئی تھی۔ راوی روڈ پر ایک پٹرول پمپ پر کام کرنے والے بشارت نامی ایک سیلز مین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پٹرول کی اس قلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے پٹرول کی قلت کی خبروں سے ڈر کر ضرورت سے زیادہ پٹرول خریدنا شروع کر دیا ہے۔
’آئل کمپنیوں کی اجارہ داری‘
پاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما جہانزیب ملک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پٹرول کی قلت کی ذمہ دار صرف اور صرف آئل کمپنیاں ہیں، جنہوں نے تقریبا ایک ماہ سے آئل کی سپلائی بہت کم کر دی ہوئی ہے۔ ان کے بقول لاہور میں پٹرول کی یومیہ طلب 40 لاکھ لیٹر ہے لیکن سپلائی صرف 13 لاکھ لٹر مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا، '' آئل کمپنیاں ہمیں جان بوجھ کر پٹرول کی سپلائی نہیں دے رہیں۔ آئل کمپنیوں کے پاس لاکھوں لیٹر تیل محفوظ پڑا ہے، جو پٹرول پمپ یہ کمپنیاں خود چلا رہی ہیں ان پر کوئی قلت نہیں ہے۔‘‘
جہانزیب ملک نے آئل کمپنیوں پر اجارہ اداری قائم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ '' یہ بااثر لوگ ہیں اور اوگرا سے ملے ہوئے ہیں۔ ان کو پٹرول کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کی پہلے ہی اطلاع مل جاتی ہے اور یہ پٹرول کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔ چند دن پہلے بھی پٹرول کی قیمتوں کے اضافے سے پہلے انہوں نے قلت پیدا کر دی تھی۔‘‘ انہوں نے تجویز پیش کی کہ پٹرول کی قلت کے معاملے کی اعلی سطحی تحقیقات کروائی جائیں۔
معائنہ کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ
اس سےقبل لاہور اکنامک جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک تقریب میں پاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پٹرول کی قلت کے حوالے سے فوری طور پر اوگرا، میڈیا اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے جو آئل ڈپو، پٹرول پمپس پا چھاپے مارنے اور پٹرول کی سپلائی کا سراغ لگائے۔
محمد حنیف نامی ایک پٹرول پمپ مالک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت پٹرول کے بارے میں کچے پکے بیانات سیاسی انداز میں دے رہی ہے لیکن اگر حکومت واضح طور پر یہ اعلان کر دے کہ فلاں تاریخ تک پٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی تو اس سے بھی فرق پڑ جائے گا۔
مارکیٹ میں گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں پٹرول پر مجوزہ سیلز ٹیکس لگنے کے بعد پٹرول کی قیمت میں چالیس روپے فی لیٹر تک کا اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان پٹرولیم ڈیلز ایسوسی ایشن کے رہنما جہانزیب ملک کے مطابق لاہور کے چار سو پچیس پٹرول پمپوں میں سے نوے فی صد کے قریب پٹرول پمپسں کو پٹرول کی قلت کا سامنا ہے۔