پاکستانی حکومت کے پانچ برس میں پچاس لاکھ سستے گھر تعمیر کرنے کے منصوبے کے لیے نوجوان نقشہ ساز مدد فراہم کریں گے۔
اشتہار
ایک سینیئر حکومتی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے آرکیٹیکچر کے شبعے کے طلبہ کو استعمال کیا جائے گا، جب کہ تعمیر کے لیے مقامی مواد اور جدید ٹیکنالوجی استعمال میں لائی جائے گی، تاکہ گھروں کی قیمت کم تر رہے۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ دیہی اور شہری علاقوں میں اگلے پانچ برسوں میں بچاس لاکھ گھر تعمیر کریں گے۔ ہاؤسنگ کے شعبے کی وفاقی ٹاسک فورس کے چیئرمین ضیغم رضوی کے مطابق تعمیرات کے شعبے میں پاکستانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا حکومتی منصوبہ ہے اور اس کے ذریعے پاکستان میں موجود بے گھر افراد میں سے قریب نصف کو گھر میسر آ جائے گا۔
بنکاک میں ہاؤسنگ فورم کے حاشیے پر رضوی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ''سستے گھر صرف غریب ممالک کا مسئلہ نہیں ہیں، بلکہ یہ مسئلہ قریب ہر ملک کا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''مگر گھر دینے کے وعدے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی نعرہ ہوتا ہے اور اس پر عموماﹰ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، وجہ انتظامی فریم ورک کی عدم دستیابی ہے۔‘‘
پاکستان کے دو بچوں نے اٹھائی بڑی ذمہ داری
کئی بار بڑے سوچتے رہ جاتے ہیں اور بچے بازی لے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی کیا کراچی میں رہنے والی شیریں اور ان کے بھائی حسن نے۔ بے گھر بچوں کو تعلیم دینے کی جو ذمہ داری حکومت کی ہے، وہ ان بچوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
ذہین بچے
ساتویں جماعت میں پڑھنے والی شیریں اور دسویں کلاس میں پڑھنے والے ان کے بھائی حسن نے کراچی کی سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے اسکول کھولا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن ہزاروں بچوں کے لیے سڑکیں ہی ان کا گھر ہیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
جدوجہد
دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ان بچوں کے لیے اسکول جانا کوئی ترجیح کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن شیریں اور حسن اسکول کو ہی ان بچوں تک لے گئے ہیں۔ کراچی کے علاقے كلفٹن میں بے آسرا بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور یہ بچے بھی کچھ کرنے کے لیے پرعزم ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
آغاز کیسے ہوا
اسٹریٹ اسکول کھولنے کا خیال کیسے آیا؟ شیریں بتاتی ہیں، ’’ایک بار میں اس سڑک سے جا رہی تھی کہ مجھے ایک بچی ملی۔ اس نے بھیک لینے سے انکار کر دیا۔ وہ بولی مجھے پڑھنا ہے، کیا آپ یہاں آ کر مجھے پڑھا سکتی ہیں؟‘‘ یہی وہ لمحہ تھا جب شیریں نے ان بچوں کو تعلیم دینے کا سوچا۔
تصویر: DW/A. Saleem
سب کا ساتھ
شیریں بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک بچے کو پڑھانا شروع کیا لیکن کچھ ہی دن میں اور بھی بہت سارے بچے پڑھنے کے لیے وہاں آنے لگے۔ اس کوشش میں شیریں کے بھائی حسن نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔ اپنے بچوں کا جذبہ دیکھ کر شیریں اور حسن کے والدین نے اس منصوبے کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا شروع کر دیے۔
تصویر: DW/A. Saleem
راشن بھی ملتا ہے
ایسے بہت سے بچوں پر ان کے خاندان بھی مالی انحصار کرتے ہیں۔ ان کے والدین چاہتے ہیں کہ جب وہ گھر واپس جائیں تو کھانا یا پیسے لے کر آئیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹ اسکول میں آنے والے بچوں کو 50 روپے اور ان کے خاندانوں کو راشن بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ بچوں کو پڑھنے سے نہ روکیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
نشے سے پڑھائی کی طرف
اسٹریٹ اسکول میں آنے والے کچھ بچے نشے کے عادی بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے خاص تھراپی کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ نشے کی لت چھوڑ کر تعلیم پر توجہ دیں سکیں۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں، لیکن جب ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا۔
تصویر: privat
لاکھوں بے گھر
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر 12 سے 13 لاکھ بچے رہتے ہیں۔ یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے، جس کا سبب غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی اور قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بڑھتے ہوئے قدم
شیریں بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے ان بچوں کو پڑھانا شروع کیا تھا تو انہیں حروف کی معلومات تو دور بلکہ صحیح طرح پینسل پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ لیکن اگر آج دیکھا جائے تو یہ پڑھ لکھ سکتے ہیں۔ شیریں چاہتی ہیں کہ وہ ہر بے گھر بچے کو پڑھائیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
چل نکلا کارواں
شیریں اور حسن کے اسکول نے ایک سال کے اندر اندر بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ان کے اسکول میں اب 75 بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بہت سے نوجوان بھی ان کی اس کوشش میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں۔ یہ ادارے اس اسٹریٹ اسکول کو سامان مہیا کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گلوبل یوتھ آف دی ایئر
بہن بھائی کی ایک اچھی کوشش کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ انہیں دسمبر 2016 میں تائیوان میں گلوبل یوتھ آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شیریں اور حسن کے خاندان کو اپنے ان بچوں پر فخر ہے۔
تصویر: privat
شمع کی صورت
کراچی کے ہر کونے میں ایسا ایک اسکول کھولنے کی شیریں کی خواہش شاید کبھی پوری نہ ہو سکے لیکن ایک سال کے اندر اندر انہوں نے ایک راستہ تو دکھا ہی دیا ہے کہ اگر حکومتیں چاہیں تو اس طرح لاکھوں بے گھر بچوں کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
11 تصاویر1 | 11
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2030 تک پاکستان میں قریب پچیس کروڑ افراد شہری علاقوں میں بس رہے ہوں گے، جب کہ اس وقت ان کی تعداد ملکی آبادی کا فقط چھتیس فیصد ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان کی قریب ایک چوتھائی آباد خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔
رضوی نے بتایا کہ لوگوں کو گھر دینے کے حوالے سے صوبہ پنجاب میں کئی مقامات پر غیرآباد زمین پر دو درجن سے زائد پائلٹ پروجیکٹس شروع کیے جا چکے ہیں۔
انہوںنے بتایا کہ یہ گھر آرکیٹکٹ کے طلبہ نے ڈیزائن کیے ہیں، اس کے لیے کم قیمت مقامی تعمیراتی مواد اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے، جب کہ مختلف علاقوں کے ثقافتی ڈھانچے اور ارضیاتی ضروریات کا خیال بھی رکھا جا رہا ہے۔
ضیغم رضوی کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ قومی مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جائیں۔