پاکستان میں پھانسیوں کی ٹرپل سینچری
15 نومبر 2015نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو پاکستانی وزارتِ داخلہ کے ایک اہل کار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سن 2014 کے بعد سے پھانسی پر عائد غیر اعلانیہ پابندی ختم کرنے کے بعد رواں برس کے دوران پھانسی پانے والوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ اہل کار کے مطابق اب تک 311 افراد کو عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ پاکستان سمیت کئی اور ممالک میں موت کی سزا کے اعداد وشمار کو کسی حد تک خفیہ رکھنے کا رواج ہے۔
پاکستان کے آزاد ہیومن رائٹس کمیشن (HRCP) کے ترجمان زمان خان نے بھی حکومتی اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چار نومبر تک دی گئی موت کی سزا کی تعداد 297 تھی اور اُس کے بعد مزید سترہ افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ سن 2014 میں پشاور کے ایک اسکول پر خون ریز دہشت گردانہ حملے کے بعد حکومت نے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد پر چھ برسوں سے عائد غیر اعلانیہ پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ اِس طرح اب تک 300 سے زائد افراد کو موت کی سزا دے کر پاکستان ایسی سزا دینے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے مقام پر آ گیا ہے۔ پہلی پوزیشن پر چین اور دوسری پر ایران ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ابتداء میں حکومتی مؤقف تھا کہ صرف ایسے لوگوں کو پھانسی دی جائے گی جن کو عدالت نے دہشت گردی کے جرم کے تحت موت کی سزا سنائی ہو گی لیکن بعد میں اُن تمام افراد کو پھانسی دی جانے لگی جن کو قتل جیسے جرم کے تحت موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی دوسری بین الاقوامی تنظیموں اور ادروں نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ موت کی سزا کو گزشتہ برس دسمبر سے قبل کی طرح معطل کر دے۔
پاکستان کی وزراتِ قانون کے اعداد و شمار کے مطابق مختلف جیلوں میں سات ہزار سے زائد مجرمین کو عدالتوں کی جانب سے موت کی سزا سنائی جا چکی ہے اور اُن کی سزا کا عمل مختلف مرحلے پر ہے۔ کئی ایسے بھی ہیں جن کو ایک دہائی سے زائد قبل موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے ترجمان زمان خان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اِس کو انتہائی ظالمانہ اور دردناک قرار دیا ہے۔ زمان خان نے سزائے موت دینے کے سلسلے کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بربریت انتہائی بدترین مقام پر پہنچ گئی ہے۔