1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی جاری کر دی گئی

عبدالستار، اسلام آباد
27 دسمبر 2021

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے ملک کی پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی کے اجراء کے بعد یہ نئی حکمت عملی مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے۔

Pakistan Islamabad | Imran Khan, Premierminister
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

کئی ناقدین کے خیال میں اس پالیسی کی ایک ایسے وقت میں کیوں ضرورت ہے جب افغانستان میں ایک پاکستان نواز حکومت برسراقتدار جبکہ بھارت سے بھی تعلقات اتنے کشیدہ نہیں جتنے کچھ عرصے پہلے تھے۔

پالیسی کے نکات

وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ وڈیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسرے حکومتی اراکین کو دیکھا جاسکتا ہے۔

بلوچستان میں مسلح افراد کا حملہ، دو پاکستانی فوجی ہلاک

اس پالیسی کی منظوری نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے آج ہونے والے اجلاس میں دی گئی جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔ وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے پالیسی پیش کرتے ہوئے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان ایک جامع اور سکیورٹی فریم ورک کی طرف شفٹ کر رہا ہے، جس کا بنیادی مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ پالیسی تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت سے تیار کی گئی ہے اور اس میں معاشی تحفظ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ معید یوسف کا کہنا تھا کہ مضبوط معیشت اضافی ذرائع پیدا کرے گی جن کو منصفانہ طور پر ملٹری اور انسانی سکیورٹی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

پالیسی کی منظوری نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے آج ہونے والے اجلاس میں دی گئی جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کیتصویر: picture-alliance/ dpa

اسٹریجک پارٹنر تبدیل ہورہے ہیں

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر اعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے خوراک جمشید اقبال چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " یہ پہلی جامع پالیسی عمران خان کی قیادت میں ملک کو دی جا رہی ہے، پاکستان اپنے اسٹریٹجک پارٹنرز تبدیل کر رہا ہے اور پاکستان کی توجہ روس، چین، ایران اور وسطی ایشیا کی طرف ہو رہی ہے، ایسے میں ہمیں ایک ایسی دستاویز کی ضرورت ہے جو نہ صرف وزارت خارجہ کو رہنمائی فراہم کر سکے بلکہ تمام دوسرے متعلقہ اداروں کو بھی رہنمائی فراہم کر سکے۔‘‘

سکیورٹی خطرات: نیوزی لینڈ نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیا

سیاسی دستاویز

کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی ہر ملک کا ایک سیاسی دستاویز ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا جہاں پر ایسٹیبلشمنٹ خارجہ امور اور اندرونی معاملات کو کنٹرول کرتی ہے۔ معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہر ملک کو نیشنل سکیورٹی پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے سیاسی طبقے کو مختلف ممالک کی نیشنل سکیورٹی پالیسیز کا جائزہ لینا چاہیے، مثال کے طور پر ساؤتھ افریقہ میں نیشنل سکیورٹی پالیسی بنانے سے پہلے انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلا کر اُن کا اِن پُٹ لیا، لیکن ہمارے ہاں بجائے اس کے کہ ہم ایسٹیبلشمنٹ یا آرمی کا اِن پُٹ لیں، ان کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں اور پھر وہ پالیسی کو ڈِکٹیٹ کرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں یا سیاسی طبقے کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔‘‘

پاکستان میں پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی عمران خان کی حکومت نے جاری کی ہے

کوئی خاص تبدیلی نہیں

عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی، "پاکستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، آپ کے برابر میں ایک ایسا ملک ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں لوگ بھوکے ہیں، خود پاکستان میں قحط اور پانی کی قلت کے بادل منڈلا رہے ہیں، معیشت کا بُرا حال ہے، ان تمام کا قومی سلامتی پر بہت اثر پڑتا ہے، تو ایسی صورت میں یقیناً ملک میں ایک سکیورٹی پالیسی ہونی چاہیے لیکن یہ سکیورٹی پالیسی اگر انڈیا کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائے گی، تواس سے ملک کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘

داعش کے اُبھرنے سے پاکستان کو لاحق خطرات

معاشی استحکام اور علاقائی اتحاد

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے لیے حالیہ برسوں میں خطرے کی نوعیت بدل گئی ہے اور سکیورٹی کی نئی تعریف میں پاکستانی پالیسی ساز اداروں کی طرف سے ملکی معیشت کو بھی سکیورٹی سے جوڑا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی آج کے اجلاس میں عوامی فلاح اور سکیورٹی کا تعلق بیان کیا ہے۔

وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا تھا کہ مضبوط معیشت اضافی ذرائع پیدا کرے گی جن کو منصفانہ طور پر ملٹری اور انسانی سکیورٹی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گاتصویر: picture-alliance/AP Photo/ A. Khan

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے بین الاقوامی امن و سلامتی سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہے، ''پاکستان کافی عرصے سے جیو اکنامک کی بات کررہا ہے کیونکہ بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے لئے معاشی استحکام بہت ضروری ہے اور پالسی سازوں کے خیال میں معاشی استحکام کے لیے علاقائی اتحاد اور تعاون بہت ضروری ہے۔

افغان طالبان کا کابل پر قبضہ: ’پاکستانی طالبان کے حوصلے بلند‘

عوامی فلاح اور نیشنل سکیورٹی 

امریکہ کے ہڈسن انسسٹیٹوٹ سے تعلق رکھنے والے سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی جب کہ امریکہ میں صدر اور کانگریس جرنیلوں کے لئے پالیسی بناتے ہیں۔

حقانی مزید کہتے ہیں، ''پاکستان ایک جوہری ملک ہے اور اس کی ایک بڑی آرمی ہے، لہذا اس کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں سکیورٹی کے اس خوف سے نکلنا چاہیے اور اپنی توجہ معیشت کو بہتر کرنے، بچوں کو تعلیم دینے اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر کرنے پر لگانی چاہیے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں