1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کا احتجاج: رکاوٹیں، گرفتاریاں، جھڑپیں

24 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اتوار چوبیس نومبر کے لیے اعلان کردہ ’فیصلہ کن‘ احتجاج جاری ہے اور صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے قافلوں کو روکنے اور کارکنان کی گرفتاریوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔

اسلام آباد جانے والے تمام راستے بند کر کے پولیس نے جگہ جگہ اپنے عارضی چیک پوائنٹ بھی قائم کر رکھے ہیں
اسلام آباد جانے والے تمام راستے بند کر کے پولیس نے جگہ جگہ اپنے عارضی چیک پوائنٹ بھی قائم کر رکھے ہیںتصویر: Tanvir Shahzad/DW

اتوار کی سہ پہر تک موصولہ اطلاعات کے مطابق لاہور، ملتان، فیصل آباد،گوجرانوالہ، پاکپتن، چونیاں اور ڈیرہ غازی خان سمیت صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں اور علاقوں سے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ ملتان میں پولیس نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں عامر ڈوگر، زین قریشی اور معین ریاض کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔

پی ٹی آئی ’فائنل کال‘ احتجاج کے لیے تیار، اسلام آباد سیل

پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آج اتوار کے روز ملک بھر سے احتجاجی مظاہرین کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے رکھی ہے۔ اس احتجاج کا مقصد عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام گرفتار شدہ رہنماؤں کی رہائی اور ''چوری شدہ‘‘ انتخابی مینڈیٹ کی واپسی بتایا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں احتجاج کرنے پر دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت پابندی لگا رکھی ہے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں پولیس نے پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں کو روکنے کے لیے کئی اہم سڑکوں پر ناکے لگا رکھے ہیںتصویر: Tanvir Shahzad/DW

پنجاب میں احتجاج روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات

صوبہپنجاب کی حکومت نے اس احتجاج کو روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات کر رکھے ہیں۔ لاہور میں اسلام آباد جانے والے تمام راستے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیے گئے ہیں۔ بسوں کے تمام اڈے بھی بند کرا دیے گئے ہیں جبکہ لاہور شہر میں داخلے اور وہاں سے روانگی کے لیے استعمال ہونے والے تمام راستوں پر پولیس کے مسلح اہلکار بھی متعین ہیں۔

لاہور کی میٹرو ٹرین بھی دو روز سے بند ہے۔ شہر کے نیازی چوک، شاہدرہ چوک، بابو صابو انٹرچینج، امامیہ کالونی، ٹھوکر نیاز بیگ اور سگیاں پل سمیت تمام اہم مقامات سیل کر دیے گئے ہیں۔ آزادی فلائی اوور بھی دونوں طرف کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔ شہر میں پرانے راوی پل پر سے بھی ٹریفک کو گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔

عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں ضمانت مل گئی

لاہور میں لبرٹی چوک، مال روڈ، ملتان روڈ اور فیروز پور روڈ سمیت جگہ جگہ پولیس نے ناکے لگا رکھے ہیں اور نوجوان موٹر سائیکل سواروں کو روک کر ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ پولیس ناکوں کے قریب قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں اور واٹر کینن بھی دکھائی دے رہی ہیں۔

سڑکیں کنٹینروں سے بند اور سامنے خار دار تاریں بھی، جن کے پاس ہی پولیس اہلکار بھی موجود رہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

مسافروں کی شکایات

لاہور میں لاری اڈے بند ہونے کی وجہ سے مسافروں کو شدید پریشانیوں کاسامنا ہے۔ محمد عباس نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہ اپنے دفتر کی ایک میٹنگ کے لی لاہور آیا تھا اور اب یہاں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اس مسافر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شہر سے نکلنے کا کوئی راستہ کھلا نہیں ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو پا رہا کہ موٹر وے کب کھلے گی۔‘‘

پاکستان: وی پی اینز بلاک کرنے کا فیصلہ، ملکی معیشت اور تاجر برادری کا بڑا نقصان

بابو صابو کے مقام پر موجود حسنین نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ آج اتوار کی رات اس کی شادی ہے اور اس نے اپنے گھر گلشن راوی سے بارات لے کر موٹروے پر سفر کرتے ہوئے ایک قریبی گاؤں جانا ہے۔ حسنین کے بقول، ''کوئی راستہ کھلا نہیں ہے۔ میں راستوں کا پتا کرنے ہی آیا ہے۔ یہاں موجود ایک پولیس اہلکار نے تو مذاقاﹰ مجھے یہ بھی کہا کہ اب تمہاری بارات صرف ہیلی کاپٹر پر ہی جا سکتی ہے۔‘‘

ادھر پاکستان ریلوے نے بھی پنجاب کے اہم شہروں سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرف جانے والی تمام ٹرینیں روک دی ہیں اور پہلے سے کنفرم کی گئی ٹکٹوں کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔

لاہور شہر میں جگہ جگہ پولیس کی تعیناتی کے ساتھ صوبائی حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے کارکن اسلام آباد کی طرف روانہ نہ ہو سکیںتصویر: Tanvir Shahzad/DW

پی ٹی آئی کے رہنما کا موقف

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک مقامی رہنما اور لاہور سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے سابقہ امیدوار رانا جاوید عمر خان نے بتایا کہ شہر میں پہلے راوی چوک سے احتجاجی قافلوں کی روانگی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن رات گئے یہ مقام بدل دیا گیا تھا۔

رانا جاوید نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکن اگر لاہور سے نہ نکلنے دیے گئے، تو پھر لاہور میں ہی احتجاج کیا جائے گا اور راستے کھلنے کے بعد اسلام آباد پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا، ''پی ٹی آئی کے صرف لاہور میں ہی ایک ہفتے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ ضمانتوں پر واپس آئے ہیں اور کچھ کو پولیس نے پیسے لے کر چھوڑ دیا ہے۔‘‘

پاکستان: 'وی پی این کے استعمال کے متعلق فتویٰ تنگ نظری ہے'

ادھر لاہور کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے کارکن ٹولیوں کی صورت میں نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی جگہوں پر ان کی پولیس سے آنکھ مچولی بھی جاری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں رانا جاوید عمر خان نے بتایا کہ اس احتجاج میں عام آدمی کم اور کارکن زیادہ حصہ لے رہے ہیں، ''ہم نے انہیں کئی دن پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تھا، جہاں سے وہ اب احتجاج کے لیے نکلے ہیں۔‘‘

لاہور میں بند روڈ پر واقع لاری اڈے پر نیازی ایکسپریس کا ٹریول ٹرمینل بندش کے باعث ویران پڑا ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

'بات چیت کا راستہ اپنانا ہو گا‘

تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ریاست نے یہ طے کر لیا ہے کہ پی ٹی آئی کو طاقت سے ڈیل کرنا ہے۔ ان کے خیال میں طاقت سے سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرنے کا تجربہ ماضی میں بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار میں بھی ناکام ہو چکا ہے، ''اس لیے اگر پاکستان کے سیاسی، معاشی اور دفاعی معاملات کو آگے بڑھانا ہے، تو پھر حکومت کو پی ٹی آئی سے بات چیت کا راستہ اپنانا ہی ہو گا۔‘‘

بلاول بھٹو ’وعدہ خلافیوں‘ پر ناراض، حکومتی اتحاد خطرے میں؟

سلمان عابد کے مطابق ہو سکتا ہے کہ حکومت اس بات کو اپنی کامیابی سمجھ کر خوش ہو رہی ہو کہ اس نے اسلام آباد کے ڈی چوک تک پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں کو پہنچنے سے روک دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، تاہم ''راستوں کی بندش، سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے یوں عالمی سطح پر جو پیغام دیا گیا ہے، وہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘‘

اسی دوران صوبہ پنجاب سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی ہے جبکہ بعض مقامات پر موبائل فونوں سے کالوں کا سلسلہ یا تو ممکن نہیں یا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

اس کے علاوہ موبائل فونز کے ذریعے انٹرنیٹ کی سہولت بھی کئی علاقوں میں معطل ہے جبکہ بہت سے صارفین نے شکایت کی کہ انہیں آڈیو اور ویڈیو مواد ڈاؤن لوڈ کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔

پاکستان تحریک انصاف کے قافلے رکاوٹوں کو توڑنے کی کوشش میں

03:37

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں