1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

پاکستان میں چار سکیورٹی اہلکار اور تین عسکریت پسند ہلاک

11 جولائی 2024

صوبہ خیبر پختونخوا کے حسن خیل علاقے میں ایک آپریشن کے دوران دو فوجی جوان، دو پولیس افسر اور تین عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔ حکام کے مطابق اس تصادم میں ایک انتہائی مطلوب شدت پسند کو بھی ختم کر دیا گیا۔

پاکستانی فوج اور پولیس اہلکار
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ایک ''ہائی پروفائل دہشت گرد'' کی موجودگی کی اطلاع کی بنیاد پر سکیورٹی فورسز اور پولیس نے بدھ کے روز ایک مشترکہ آپریشن انجام دیاتصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز پشاور کے ضلع حسن خیل کے علاقے میں انٹیلیجنس پر مبنی ایک آپریشن کے دوران فوج کے دو جوان اور دو پولیس افسر ہلاک ہو گئے۔ اس آپریشن میں تین عسکریت پسند بھی مارے گئے ہیں۔

پاکستان: تین واقعات میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک

 اس آپریشن سے محض 24 گھنٹے قبل یعنی منگل کے روز خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی اور شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم اور حملے کے مختلف واقعات میں سکیورٹی فورسز کے پانچ اہلکار اور تین بچے ہلاک ہو گئے تھے۔

فوج نے بدھ کے حملے کے بارے میں کیا کہا؟

پاکستانی فوج کی میڈیا ونگ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ''ہائی پروفائل دہشت گرد'' کی موجودگی کی اطلاع کی بنیاد پر سکیورٹی فورسز اور پولیس نے بدھ کے روز ایک مشترکہ آپریشن انجام دیا۔

پاکستان نے افغان سرحد کے ساتھ نیا فوجی آپریشن کیوں شروع کیا؟

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ''ہائی ویلیو ٹارگٹ'' میں شدت پسندوں کے ایک کمانڈر عبدالرحیم اور اس کے دو دیگر ساتھی عسکریت پسندوں کو ''شدید فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کر دیا گیا۔''

'افغانستان میں ٹی ٹی پی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے'، پاکستان

فوج کا کہنا ہے کہ ''قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عبدالرحیم انتہائی مطلوب تھا اور حکومت نے اس پر 60 لاکھ روپے کی رقم بھی مقرر کی تھی۔ وہ دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں سرگرم رہا تھا اور رواں برس 26 مئی کے روز کیپٹن حسین جہانگیر اور حوالدار شفیق اللہ کی موت کا بھی وہی ذمہ دار تھا۔''

رواں ہفتے منگل کے روز ہی لکی مروت، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع میں تین مختلف واقعات میں پانچ سکیورٹی اہلکار اور تین بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: AFP

آئی ایس پی آر نے کہا، ''آج کے آپریشن میں اس کی گھناؤنی سرگرمیوں کا انتقام لے لیا گیا اور انصاف کے ساتھ وہ اپنے انجام کو پہنچا۔'' فوج کے بیان کے مطابق عسکریت پسندوں سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔

دو فوجی اور دو پولیس اہلکار ہلاک

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اس آپریشن میں پاکستانی فوج کے دو جوان اور دو پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ فوجیوں کی شناخت ضلع صوابی کے رہائشی 34 سالہ سپاہی محمد ادریس اور ضلع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ سپاہی بدام گل کے طور پر کی گئی ہے۔

پاکستانی طالبان کے دو اہم کمانڈر گرفتار

متاثرہ پولیس اہلکاروں میں خیبر پختونخوا کے انسداد دہشت گردی کے محکمے میں کام کرنے والے 38 سالہ سب انسپکٹر تاجمیر شاہ کا نام شامل ہے، جو پشاور کے رہائشی تھے۔ دوسرے ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کی شناخت ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ ایس آئی محمد اکرم کے طور پر کی گئی ہے۔

افغان سرحد کے قریب کُرم میں بم دھماکہ، پانچ پاکستانی فوجی ہلاک

فوج نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ''پاکستان کی سکیورٹی فورسز دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں تاکہ پورے پاکستان میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے اور ہمارے بہادر جوانوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔''

ٹی ٹی پی کا عید الاضحیٰ پر تین روزہ فائر بندی کا اعلان

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سمیت متعدد رہنماؤں نے متاثرہ سکیورٹی اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ہی ان کے اہل خانہ سے تعزیت بھی کی ہے۔ 

پر تشدد واقعات میں اضافہ

اس واقعے سے عین ایک روز قبل ہی لکی مروت، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع میں تین مختلف واقعات میں پانچ سکیورٹی اہلکار اور تین بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

خیبر پختونخوا میں بم دھماکے میں سات پاکستانی فوجی ہلاک

منگل کے روز پیش آنے والے ان واقعات میں شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک فوجی اہلکار ہلاک ہوا تھا، جب کہ جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ایک اور ایک حملے میں تین فوجی جوان ہلاک  اور 12 زخمی ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ ضلع لکی مروت میں ایک پولیس افسر اور اس کے تین کمسن بھانجے بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

نومبر 2022ء میں کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنے کے بعد سے پاکستان میں گزشتہ سال بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز نامی مقامی تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2023ء میں عسکریت پسندوں کے 789 حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں 1524 افراد مارے گئے جب کہ 1463 افراد زخمی بھی ہوئے، جو کہ پچھلے چھ سال کی سب سے بڑی سالانہ تعداد ہے۔

صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہی بالترتیب 90 فیصد ہلاکتیں اور 84 فیصد حملے ہوئے۔ ان میں عسکریت پسندوں کے حملے اور سکیورٹی فورسز کی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں دونوں شامل ہیں۔

ص ز/ ج ا (خبر رساں ادارے)

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟

22:32

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں