1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ’ڈالہ‘ طاقت اور خوف کی علامت کیسے بنا؟

20 دسمبر 2024

ویگو ڈالہ پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی اہم طبقاتی تقسیم میں طاقت، خوشحالی اور خوف کی علامت بن چکا ہے۔ بعض سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ جاپانی کار میکر ٹویوٹا کی ویگو کے بغیر پاکستان میں انتخابات لڑنا مکمن نہیں رہا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ویگو اختلافی آوازوں کے حامل افراد کے ''اغوا'' میں بھی ایک ٹریڈ مارک بن گئی ہے
انسانی حقوق کے کارکنوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ویگو اختلافی آوازوں کے حامل افراد کے ''اغوا'' میں بھی ایک ٹریڈ مارک بن گئی ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بدنام زمانہ ٹریفک رش میں پھنسی گاڑیاں تقریباﹰ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی اور رینگتے ہوئے بمشکل آگے بڑھ پاتی ہیں۔ لیکن ایسے میں کچھ گاڑیاں اس رش کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ عام طور پر ٹویوٹا کے ویگو پک اپ ٹرک ہوتے ہیں، جنہیں مقامی طور پر ''ڈالہ'' کہا جاتا ہے۔

خوشحالی اور خوف کی علامت

یہ گاڑیاں پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی اہم طبقاتی تقسیم میں طاقت، خوشحالی اور خوف کی علامت بن چکی ہیں۔ کراچی کے ایک سیاست دان عثمان پرہیار نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا، ''اس گاڑی کا ایک امیج ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس پر جس کسی کو بھی لے جایا جا رہا ہے، وہ ایک اہم شخصیت ہونی چاہیے۔ اس میں سب کچھ ہے، دکھاوا، اضافی سکیورٹی اور کھلے کارگو بیڈ پر کئی لوگوں کے بیٹھنے کے لیے کافی جگہ۔''

کراچی کی افراتفری والی سڑکوں پر، ٹویاٹا ویگو ٹریفک کی قطاروں کو کاٹتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں۔ ان کے ڈرائیور اکثر  تیز رفتاری کے ساتھ اپنی ہیڈ لائٹس چمکا تے ہوئے آگے والی گاڑیوں کو راستے سے ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ویگو اپنے قابل اعتماد ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے دیہی اور پہاڑی علاقوں میں جاگیردار اشرافیہ میں مقبول ہوئیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں ''ڈالے'' کی نئے کامیاب شہری کاروباری مالکان کے درمیان حفاظتی اسکواڈ کی ایک گاڑی کے طور پر مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

 عام طور پر اسکارف میں لپٹے چہروں  اور کلاشنکوفوں سے مسلح گارڈز کو ان گاڑیوں کے عقبی حصے میں بٹھایا جاتا ہےتصویر: Asif Hassan/AFP

 عام طور پر اسکارف میں لپٹے چہروں اور کلاشنکوفوں سے مسلح گارڈز کو ان گاڑیوں کے عقبی حصے میں بٹھایا جاتا ہے، جبکہ ان کے شیشے اکثر سیاہ ہوتے ہیں، جس سے اس کے اندر بیٹھے فرد کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی میں مقیم ایک کار ڈیلر فہد نذیر کا کہنا ہے، ''لوگوں کے پیچھے ایک یا دو پک اپ گاڑیاں ہونا، ایک سٹیٹس سمبل ہے۔''

'ڈالے کے بغیر الیکشن ناممکن'

ٹویوٹا کی ہائی لکس پہلی بار 1968ء میں متعارف کرائی گئی تھی لیکن پاکستان میں اس کا جو ماڈل مقبول ہوا وہ 2000 ءکی دہائی کے وسط میں آنے والا ماڈل ہائی لکس ویگو تھا۔ بعد میں اسے اپ گریڈ کیا گیا اور ریوو کے نام سے دوبارہ برانڈ کیا گیا، جس کی قیمتیں 10 سے 15 ملین روپے (تقریباً36,000 سے54,000  ہزار ڈالر ) تھیں۔

ان گاڑیوں کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں اور وہ روایتی طور پر ان کے مینوفیکچرر، ٹویوٹا کے زیر تسلط مارکیٹ میں بہترین ری سیل ویلیو برقرار رکھتی ہیں۔ گاڑیاں فروخت کرنے والے فہد نذیر کا کہنا ہے، ''ہمارے پاس جو بھی لگژری آئٹمز ہیں، ان میں یہ سب سے تیزی سے فروخت ہونے والی چیز ہے۔'' ڈیلرز کا کہنا ہے کہ فروری کے قومی انتخابات کے دوران اس کےکرایوں میں بھی اضافہ ہوا تھا۔

عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  کے صوبائی رکن پارلیمنٹ سجاد علی سومرو کا کہنا ہے، ''میں خدا کی قسم کھاتا ہوں، آپ ریوو کے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتے۔'' اسی طرح  صوبہ پنجاب کے شہر گجرات میں حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سیاست دان علی وڑائچ کے نزدیک دو ہائی لکس کےساتھ سفر کرنا ضروری ہے۔ اس طرح وہ شادیوں کی  درجنوں تقریبات یا انتقال کر جانے والے افراد کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے ان ناہموار علاقوں میں جانے کے قابل بھی ہو جاتے ہیں، جہاں پختہ سڑکیں موجود نہیں۔

ٹویوٹا کا ہائی لیکس ویگو ماڈل پاکستان میں ایک سٹیٹس سمبل بن چکا ہے تصویر: Aamir Qureshi/AFP

 انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''اس گاڑی کے بغیر سیاست تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔'' اس حوالے سے دلیل دیتے ہوئے علی وڑائچ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس ویگو یا ریوو گاڑی نہ ہو تو آپ کے ممکنہ حامی آپ کے اثر و رسوخ پر سوال اٹھا تے ہوئے آپ کے حریفوں کی جانب رخ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں یہ گاڑی ایک بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔

'اغوا کا ٹریڈ مارک'

انسانی حقوق کے کارکنوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ویگو اختلافی آوازوں کے حامل افراد کے ''اغوا'' میں بھی ایک ٹریڈ مارک بن گئی ہے۔  فوجی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خفیہ کارروائیوں میں استعمال ہونے کی وجہ سے اس گاڑی کو ''ڈالہ'' بھی کہا جاتا ہے۔

 پی ٹی آئی کے سینیئر رہنماؤں اور عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے حکام کی جانب سے حالیہ کریک ڈاؤن میں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے بغیر نمبر پلیٹ والی ویگو کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا، جس سے اس گاڑی کی بدنامی کو تقویت ملی۔ اس سال کے شروع میں اٹھائے گئے پی ٹی آئی کے ایک رکن نے کہا، ''جب بھی میں اس گاڑی کو سڑک پر دیکھتا ہوں، میں اسی صدمے سے گزرتا ہوں جو میں نے ایجنسیوں کے ساتھ اپنی حراست کے دوران برداشت کیا تھا۔''

سابق وزیر اعظم عمران خان کو  مئی 2023 میں دارالحکومت اسلام آباد سے گرفتار کرنے کے بعد رینجرز   ایک کالے رنگ کے ڈالے میں ہی ڈال کر اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ خان نے اپنی اس طرح گرفتاری کا الزام طاقتور فوجی قیادت پر لگایا تھا۔ بعد میں عمران خان  نے سیاسی ہیوی ویٹ اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف پر ''ویگو ڈالے کے ذریعے'' الیکشن جیتنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس الزام کا اشارہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب تھا کہ وہ ن لیگ کی انتخابی مہم چلا رہی ہے۔

ہائی لکس گاڑیوں کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں اور وہ روایتی طور پر ان کے مینوفیکچرر، ٹویوٹا کے زیر تسلط مارکیٹ میں بہترین ری سیل ویلیو برقرار رکھتی ہیںتصویر: Asif Hassan/AFP

'ہم آس پاس ہیں'

پاکستانی فوج کی ملکی سیاست میں مداخلت پر تنقیدکے لیے مشہور پاکستانی شاعر احمد فرہاد کو مئی میں ان کے گھر پر چھاپے کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار ایک ہائی لیکس میں ہی اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''بعض اوقات، وہ ان گاڑیوں کو میری گاڑی کے ارد گرد یا پیچھے پارک کرتے ہیں، جس سے یہ واضح پیغام جاتا ہے: 'ہم آس پاس ہیں۔' ان کا مزید کہنا تھا، ''ایک ڈالہ خوف پھیلانے کے ان (خفیہ ایجنسیوں) کے کاروبار سے منسلک ہے، جس پر وہ بہت مطمئن ہیں۔''

جرائم سے تحفظ بھی

اسٹریٹ کرائمز سے بھرے شہر کراچی میں جرائم پیشہ افراد بھی ڈالے سے ڈرتے ہیں۔ گاڑیوں کے ایک شوقین 35 سالہ زوہیب خان کا کہنا ہے، ''ایک عام موبائل چھیننے والا ڈالے کے مقابلے میں ایک کار کو لوٹنے کا انتخاب کرے گا۔''بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے پولیس کی طرف سے سکیورٹی چیکنگ بڑھا دی گئی ہے، جس سے شہر بھر میں ٹریفک کی نقل و حرکت مزید سست رفتار ہو گئی ہے۔ لیکن ویگو کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ زوہیب خان کا کہنا تھا، ''پولیس عام طور پر مجھے نہیں روکتی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ میں کوئی ایسا شخص ہوں جو ان کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے یا کسی نہ کسی طریقے سے انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔''

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں