1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ڈرون حملے، مجموعی ہلاکتیں ساڑھے تین ہزار سے زائد

فرید اللہ خان، پشاور6 ستمبر 2013

پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں کیے گئے ایک نئے ڈرون حملے میں دو میزائل داغے گئے، جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کا سینئر کمانڈر ملا سنگین زدران اور تین دیگر مشتبہ جنگجو مارے گئے۔

تصویر: picture alliance/dpa

سنگین زدران کو اقوام متحدہ نے اگست2011ء میں غیر ملکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں چھپے القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے ارکان کے خلاف میزائلوں سے کیے جانے والے ڈرون حملوں کا سلسلہ کئی سال پہلے شروع ہوا تھا۔ پہلے حملے میں طالبان کمانڈر نیک محمد وزیر اور اس کے چار ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ نیک محمد وزیر کو پاکستان کے ساتھ امن معاہدے کے چند ہی روز بعد نشانہ بنایا گیا تھا۔

پاکستانی عوام اور حکومت ڈرون حملوں کو اپنے ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیںتصویر: picture alliance/Photoshot

اب تک کیے جانے والے ایسے 345 کے قریب ڈرون حملوں میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ بارہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے فوجی آمر مشرف کے دور میں شروع ہوئے لیکن 2008ء میں منتخب جمہوری حکومت کے دور میں ان میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ 11 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ نون نے عوام سے ملک میں قیام امن کا وعدہ کیا تھا۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے ڈرون حملوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرنے یا پھر ایسے ڈرون طیاروں کو مار گرانے کا وعدہ کیا تھا۔

اس وقت وفاق میں مسلم لیگ (ن) جبکہ صوبے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون آج بھی ڈرون حملوں پر احتجاج کرتی ہے اور حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے دوران بھی پاکستان کے خارجہ اُمور کے مشیر سرتاج عزیر کا کہنا تھا کہ یہ ڈرون حملے جہاں پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف ہیں وہیں پر یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ لیکن دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف قیام امن کے تمام تر اقدامات کو وفاق کی ذمہ داری قرار دے رہی ہے۔ اس کا ڈرون حملوں سے متعلق موقف بھی تبدیل ہوا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سیکرٹری جنرل اور صوبائی وزیر شوکت علی یوسفزئی کا کہنا ہے، ’’خارجہ پالیسی وفاقی حکومت بناتی ہے۔ انتخابات سے قبل ہم نے غیر ملکی مداخلت روکنے کے لیے جامع لائحہ عمل تیار کیا تھا۔ لیکن عوام نے ہمیں صرف صوبے کے لیے حکومتی مینڈیٹ دیا ہے۔ لہٰذا صوبے میں قیام امن کے لیے ہم تمام تر اقداما ت کریں گے لیکن ڈرون حملوں کو روکنے اور قیام امن کے لیے پالیسی سازی وفاقی حکومت کا کام ہے۔‘‘

معروف تجزیہ نگار اور افغان امور کے ماہر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے میزائل حملوں میں کمی کی بنیادی وجہ امریکا اور اتحادیوں کا افغانستان سے انخلاء ہے، ورنہ کسی بھی حکومت نے ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے نہ تو مؤثر بات چیت کی ہے اور نہ اس طرح احتجاج کیا جس طرح وقت کا تقاضا تھا۔ ان کے بقول امریکا دیگر محاذوں پر مصروف ہوگیا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اب افغانستان سے نکلنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جبکہ افغانستان میں القاعدہ کی سرگرمیاں بھی کم ہو گئی ہیں۔ اب شاید افغانستان ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی پاکستان نے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی بات کی، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہوئے اور یہ سلسلہ نیک محمد وزیر کے ساتھ شگئی معاہدے سے شروع ہوا تھا۔

ڈرون طیاروں سے کیے جانے والے میزائل حملوں میں اب تک القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے کئی سرکردہ کمانڈروں کونشانہ بنایا جا چکا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

قیام امن کے لیے مؤثر پالیسی کے فقدان سے جہاں عوام نالاں ہیں وہاں معروف قانون دان بابر قاضی کہتے ہیں، ’’کوئی بھی حکومت یہ ہمت نہ کر سکی کہ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے اس کے پاس پاکستان میں داخل ہوکر عسکری کارروائی کا کوئی اختیار نہیں اور یہ سلسلہ کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک میں کھلی مداخلت ہے۔‘‘ بابر قاضی کا مزید کہنا تھا کہ کسی کی مرضی کے بغیر کوئی بھی کسی کے گھر داخل نہیں ہو سکتا۔ ڈرون حملوں کو رکوانے سے متعلق پاکستانی حکمرانوں کا کردار عوامی امنگوں کے برعکس رہا ہے۔

پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا تھا لیکن اس کے باوجود یہ ڈرون حملے بند نہ ہو سکے۔ تازہ ترین حملہ سال رواں کا 21واں حملہ تھا۔ امریکا ڈرون حملوں کو اپنی کامیاب پالیسی کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ ان حملوں کے دوران جہاں القاعدہ کے کئی اہم کمانڈر مارے جانے کے دعوے کیے گیا وہاں مقامی طالبان کمانڈروں نیک محمد وزیر، قاری حسین، مولوی نذیر،بیت اللہ محسود اور ولی الرحمان سمیت بہت سے دیگر سرکردہ عسکریت پسند بھی مارے جا چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں