پاکستان میں ڈیجیٹل معاشرے کے مواقع ضائع
1 اگست 2019
-
ثقافتی اقدار، غلیظ زبان کے استعمال اور ہراسگی کی وجہ سے خواتین اور اقلیتوں کی بھر پور آن لائن شرکت نہیں ہو سکتی
-
تعصب کو تقویت دینے والے انٹرنیٹ قوانین تخلیقی عمل اور مختلف موضوعات پر کھلے مباحثوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں
-
ڈیجیٹل تقسیم کی وجہ سے پسماندہ طبقات کی آن لائن نمائندگی متا ثر ہو رہی ہے
ڈیجیٹل میڈیا نے لاکھوں افراد کو ایک ایسی جگہ مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا، جہاں وہ اس طرح کے بحث مباحثوں میں حصہ لے سکیں جو روایتی میڈیا پر ممکن نہیں ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ کے بارے میں نئے قوانین کے اطلاق کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا بلکہ صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔ اس کا نتیجہ آن لائن قوم پرستی اور مذہبی ہٹ دھرمی کی صورت میں سامنے آیا۔ صحافی ماروی سرمد کےمطابق، ''اگر آپ کا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہے اور آپ حد سے زیادہ قوم پرست نہیں ہیں، تو پھر آپ سوشل میڈیا پر بے ہودگی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘‘ مثال کے طور پر احمدیہ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد خود کو سوشل میڈیا پر متعارف نہ کرانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جیسے ہی وہ عوامی مقامات پر اپنا تعارف کسی احمدی کے طور پر کراتے ہیں، تو انہیں مغلظات اور حتیٰ کہ جسمانی تشدد تک کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی آن لائن شناخت مخفی رکھتے ہوئے پہلے کبھی جو کھلے اور آزادانہ مباحثے ہوا کرتے تھے، اب تیزی سے نا ممکن ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی سماجی اقدار خواتین کے لیے اس نوعیت کی کسی بھی شراکت داری کو شجر ممنوعہ بنا دیتی ہیں۔ مرد کنبے کے سربراہ ہوتے ہیں اور وہ خواتین کی موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی کو اکثر اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ کبنے کے مرد خواتین پر روایتی سماجی پابندیوں کے اطلاق کو یقینی بناتے ہیں۔ ملک کے بعض حصوں میں خواتین کو فیس بک اکاؤنٹ بنانے کی اجازت نہیں اور اپنی تصاویر شیئر کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر خواتین کو آن لائن تصاویر شیئر کرنے کی اجازت مل بھی جائے، تو وہ انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے پسے ہوئے طبقات اور صنفی مسائل پر کام کرنے والی ماہر سماجیات ڈاکٹر ندا کرمانی کہتی ہیں، ''پاکستان میں متوسط اور نچلے درجے کی آمدنی والے گھرانوں کی خواتین میں فرضی ناموں اور غیر متعلقہ تصاویر کا استعمال کر کے اپنا فیس بک پروفائل بنانا ایک عام سی بات ہے۔‘‘
صحافی صباحت ذکریا کا کہنا ہے کہ مخفی شناخت خواتین کو آن لائن بحث مباحثے میں حصہ لینے کا اہل بناتی ہے اور اس طرح وہ کچھ دیر کے لیے آزادی حاصل کر پاتی ہیں۔ لیکن ان کے لیے ایسی آزاد رول ماڈل خواتین کی موجودگی ضروری ہے، جنہیں دیکھ کر وہ بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والی اکثر خواتین کے اہل خانہ ان کی کڑی نگرنی کرتے ہیں۔ عام طور پر بھی مردوں کے زیراثر پاکستانی معاشرے میں خواتین کی حرکات وسکنات کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں اختلاف رائے کی گنجائش موجود نہ ہو اور سخت قوانین کی وجہ سے آزادیء اظہار کو بھی خطرات لاحق ہوں، وہاں خواتین کو کسی بھی اختلافی بات پر مردوں کی نسبت زیادہ بڑا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
میڈیا سے متعلق آگاہی میں کمی اور جعلی خبروں کی بھرمار
پاکستان میں روایتی میڈیا خصوصاﹰ ٹی وی چینلز کی خبروں میں شفافیت اور درستگی کے بارے میں تحفظات کے باوجود اسے ملک میں جمہوری سیاست کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ یہی صورت حال سوشل میڈیا کی بھی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت سے ایشوز جو سنسرشپ اور عدم توجہ کی وجہ سے روایتی میڈیا میں جگہ نہیں بنا سکتے، سوشل میڈیا پر خوب توجہ حاصل کرتے ہیں۔ عام طور پر سوشل میڈیا صارفین چند مخصوص خبروں کی صحت کو جانچ نہیں پاتے۔ ڈاکٹر ندا کرمانی کہتی ہیں، ''میں ہمیشہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہوں کہ کس طرح لوگ اپنے موبائل فون پر دیکھی گئی کسی بھی چیز پر یقین کر لیتے ہیں۔‘‘ یہ صورت حال معاشرے میں عمومی اعتماد کے فقدان کے باوجود قائم ہے۔ صباحت ذکریا اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی چیزوں پر اندھا اعتماد معاشرے میں ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ لوگ ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں جو کسی موضوع پر ان کے ذاتی نقطہء نظر سے میل کھاتی ہوں۔ ماروی سرمد کے بقول، ''ہرقسم کے اختلاف رائے اور مخالف نقطہء نظر کو مذہب اور ریاست مخالف سرگرمی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور ہر فرد خود کو درست سمجھنے لگتا ہے۔ وزیر اعظم نے صحافیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی طرف داری کریں، کیونکہ وزیر اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طرف داری کرنا پاکستان کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔‘‘
فیس بک اور ٹوئٹرکے ڈیجیٹل حقوق کے منافی اقدامات
ٹوئٹر اور فیس بک کے انتظامی اداروں کے پاکستانی حکومت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعاون کے ساتھ ہی ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کی تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ دونوں بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں انٹرنیٹ سے متعلق مبہم قوانین کے اطلاق میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ ان قوانین کے تحت ایک مقدمے میں ملزم کو موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔
صباحت ذکریا کے مطابق، ''اگر آپ سوشل میڈیا پر چند مخصوص خیالات کا اظہار کریں، تو اس پر آ پ کا تعاقب کیا جا سکتا ہے اور آپ جیل بھی جا سکتے ہیں۔‘‘ اس طرح کی نگرانی کو ثقافتی طور پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ماروی سرمد کے مطابق، ''سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد بہت سے لوگوں نے یہ سوچ کر اپنے اکاؤنٹس غیر فعال کر دیے کہ ممکن ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے انتظامی اداروں کی طرف سے ان کے نجی کوائف اور پرائیویسی کا تحفظ نہ کیا جائے اور ان سے متعلق ذاتی ڈیٹا حکومت کو مہیا کر دیا جائے۔‘‘
اس صورت حال میں سب سے محفوظ طریقہ انٹرٹینمنٹ سے متعلق مواد کی تیاری ہے۔ صباحت ذکریا کہتی ہیں، ''انٹرٹینمنٹ میں فیشن، سیر و سیاحت اور لائف سٹائل مشہور موضوعات ہیں۔ سیاسی نوعیت کا اور دانشورانہ مواد بہت ہی کم ہوتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ''اس طرح کا مواد اکثر معاشرے کی رجعت پسندانہ اقدار کو مضبوط بنانے والا ہونے کے علاوہ ناقص معیارکا حامل اور جدت سے عاری ہوتا ہے۔‘‘ لوگوں کے عطیات سے چلنے والی ویب سائٹس کو قانونی طور پر پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اس وجہ سے کوئی بھی قابل ذکر سماجی منصوبہ اس سمت میں کام نہیں کر رہا۔
ڈیجیٹل خواندگی کی ناقص شرح کا مطلب ہے کہ شہری شاذ و نادر ہی انٹرنیٹ پر اس حد سے آگے بڑھ پاتے ہیں، جس کا تعین وہ پہلے سے ہی کر چکے ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ماروی سرمد کہتی ہیں، ''بہت سے نوجوان مرد اور لڑکے جو اردو زبان میں ایک جملہ بھی نہیں لکھ سکتے، وہ سوشل میڈیا کا استعمال سیکھ لیتے ہیں کیونکہ یہ ان کے لیے تفریح کا ایک ذریعہ ہے۔ اس طرح کے صارفین کو جعلی خبروں کے ذریعے باآسانی گمراہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس ڈیجیٹل تقسیم نے پسماندہ صوبے بلوچستان اور شورش زدہ قبائلی علاقوں میں بسنے والوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان علاقوں میں لوگوں کے لیے شاید سوشل میڈیا ہی قومی سطح کے مباحثوں میں حصہ لینے کا واحد ذریعہ ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل خواندگی اور شراکت داری کے قابل ذکر منصوبے دستیاب نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ندا کرمانی کے مطابق یونیورسٹیوں میں میڈیا کی نئی جہتوں سے متعلق تعلیم کے بارے میں تحقیق بہت کم اور ناقص معیار کی ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
صباحت ذکریا، صحافی
’’ڈیجیٹل میڈیا کی دنیا میں راز داری قائم رہنے کا امکان پسے ہوئے طبقات کے لوگوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر آن لائن اپنی مرضی کی بات کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ راز داری ایسے معاشروں میں خطرناک بھی ہو سکتی ہے، جہاں لوگوں کو ایسے رول ماڈلز کی ضرورت ہوتی ہے، جو اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت کے بارے میں دوسروں کو متاثر کر سکیں۔‘‘
ماروی سرمد، صحافی
’’اگر آپ مذہب اور سیاست پر روایتی نقطہء نظر سے اختلاف کریں، تو آپ کو سوشل میڈیا پر کردار کشی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ صورت حال دراصل ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، جو اپنی آزادانہ رائے کا آن لائن اظہار کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر ندا کرمانی، ماہر سماجیات
’’پاکستان کے بعض علاقوں میں خواتین کے لیے فیس بک اکاؤنٹ رکھنا ممنوع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان کے بارے میں باتیں کریں گے اور یہ بات ان کے اہل خانہ کو پسند نہیں۔‘‘
سفارشات
ڈیجیٹل شرح خواندگی میں بہتری
’’معاشرے کے پسے ہوئے طبقات، خواتین ، اقلیتوں اور غریب لوگوں کی ڈیجیٹل شراکت داری بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل شرح خواندگی میں اضافہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ حقیقت اور افسانے میں امتیاز کر سکنے سے لے کر سماج کے نظر انداز کیے گئے افراد کو آواز اٹھانے کا موقع فراہم کرنے تک ڈیجیٹل خواندگی کے فوائد بے شمار اور وسیع تر ہیں۔ حکومت کو ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔‘‘
آن لائن اظہار رائے کی آزادی
''پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ وہ سختی کے ساتھ ایسے افراد کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، جو تنقید کرنے والوں کو خاموش کرا دینے کے لیے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں اور ایک ایسے کلچر کو فروغ دینا چاہیے جو انٹرنیٹ پر اظہار رائے کی آزادی کا ضامن ہو سکے۔ شہریوں کو نئے خیالات اور جدت کی طرف مائل کرنا اور ان میں برداشت کا مادہ پیدا کرنا سماجی ترقی کے بنیادی ستون ہیں۔‘‘
ڈیجیٹل تقسیم کا خاتمہ
''معاشرے کے محکوم طبقات کے لوگوں کو آن لائن بحث مباحثوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کرنا ڈیجیٹل تقسیم کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے باشندوں کی ڈیجیٹل انقلاب میں شرکت کو یقینی بنانا حکومتی پالیسی کا بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔‘‘
#بولو بھی بیرومیٹر ڈی ڈبلیو اکیڈیمی کا ایک پروجیکٹ ہے، جس میں ڈیجیٹل شراکت داری، آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کے درمیان ربط کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ مزید معلومات کے لیے: www.dw.com/barometer