پاکستان میں ’ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن‘ کی تعلیم ضروری کیوں؟
28 دسمبر 2024موسمیاتی تبدیلوں کے باعث پاکستان کے 100 سے زائد اضلاع پچھلی دو دہائیوں سے مسلسل قدرتی آفات کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ ان نقصانات میں کمی کے لیے ملک گیر آگہی مہم کے ذریعے عوام کو اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کو باضابطہ طور پر ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن یعنی آفات کے خطرات سے بچاؤ اور ان میں کمی کے حوالے سے تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ تربیت خاص طور پر آبادی کے 62 فیصد نوجوان طبقے کو نہ صرف ان آفات سے نمٹنے کے قابل بنائے گی، بلکہ انہیں ماحولیاتی مسائل کے بارے میں شعور بھی دے گی۔
ایک نجی تحقیقی ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر احمد جمال نے، جو کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کی نمائندگی بھی کرتے ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے اور مستقبل میں اس کی اہمیت مزید بڑھتی ہی جائے گی۔‘‘
سال 2006 کے بعد 26 غریب ترین ممالک بدترین مالی حالت میں، عالمی بینک
اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پیشگی اطلاع کا سائنسی نظام، رد عمل، ایمرجنسی ریلیف، اور بحالی جیسے اقدامات ضروری ہیں۔ یہ نظام آفات کے دوران لوگوں کی حفاظت، نقصانات کو کم کرنے، اور بحران کے بعد بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات سے متعلق تربیت سے تاکہ نوجوان ااپنے اندر خود کو اور اپنے علاقوں کو بچانے کی صلاحیت پیدا کر سکیں۔‘‘
اس وقت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کفالت کی مستحق خواتین کے گھرانوں سے 10 ملین بچے تعلیمی وظائف پروگرام کے تحت اسکولوں میں داخل ہیں، جن میں سے 74 فیصد پرائمری اور 24 فیصد سیکنڈری سطح کے طلبا و طالبات ہیں۔ ان بچوں کو ماحول دوست رویوں کی تربیت دے کر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔
سندھ میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ
قدرتی آفات کے خطرات سے بچاؤ اور کمی کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرنے کی تعلیم اسکولوں میں طلبا و طالبات کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ تربیت پہلے سے ان کو آفات سے جنم لینے والے خطرات کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف وہ خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھنے کے قابل ہوں گے بلکہ کمیونٹی کی سطح پر بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مینیجر پالیسی زوہیب درانی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارے ادارے نے حال ہی میں ’پاکستان سیفٹی اسکول فریم ورک‘ مرتب کیا ہے، جس میں تعلیمی اداروں میں قدرتی آفات سے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تین کلیدی پہلو شامل کیے گئے ہیں، جن کا مقصد طلبہ کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی تربیت دینا ہے تاکہ وہ ہنگامی حالات میں بہتر رد عمل کا مظاہرہ کر سکیں۔‘‘
جنوبی ایشیا: تین چوتھائی بچوں کو شدید گرمی کے خطرات کا سامنا
انہوں نے کہا کہ اس کا ’’دوسرا مقصد تعلیمی اداروں کے بلڈنگ انفراسٹرکچر کو زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ بنانا ہے جبکہ تیسرا اہم پہلو متاثرہ علاقوں کے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی استعداد بڑھانے کے لیے ریزیلیئنس بلڈنگ کی تربیت ہے۔‘‘
زوہیب درانی نے بتایا کہ یہ تربیت مہینے میں دو مرتبہ دی جاتی ہے، جس میں روک تھام، تیاری، تعمیر نو اور خطرے میں کمی کے پہلو بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ تربیت نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ سرکاری افسران اور کمیونٹی کے دیگر افراد کو سمیولیشن (تربیتی مشقوں) کی بنیاد پر دی جاتی ہے تاکہ وہ قدرتی آفات کا مؤثر اور منظم طریقے سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کسی بھی علاقے کے مکینوں کو یہ معلومات اور شعور دونوں ہونا چاہییں کہ ان کا علاقہ قدرتی آفات کے لحاظ سے کتنا حساس ہے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کون کون سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی صوبہ پنجاب میں آسمانی بجلی گرنے سے دس افراد ہلاک
این ڈی ایم اے نے اپنے آئندہ منصوبوں میں ایک پیشگی حکمت عملی اپنائی ہے، جس میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری اور نقصانات کو کم سے کم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف آفات کے اثرات کو محدود کریں گے بلکہ عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں میں ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ طلبا و طالبات کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بہتر طور پر آگاہ کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں نوجوان نسل کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبے میں بھی مہارت حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ ملکی ترقی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے منصوبوں دونوں میں مدد دے سکیں۔
جنگیں اور قدرتی آفات سرفہرست: مہاجرت اور اس کی وجوہات کے بارے میں جانیے
انہیں ایسی جدت پسندی کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہیے جو ماحول کو نقصان پہنچانے والے عوامل میں کمی کرنے کا باعث بنے۔ لہٰذا حکومت، این جی اوز، کمیونٹی اور تعلیمی ادارے مل کر ایسے اقدامات کریں، جو معاشرے کو نہ صرف ماحولیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائیں بلکہ ماحول دوست سوچ کو فروغ دے کر آئندہ نسلوں کے لیے ایک محفوظ، خوشحال اور مستحکم دنیا کی تعمیر کو بھی ممکن بنائیں۔