جیسے جیسے ہم ٹیکنالوجی کے دور میں آگے بڑھتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے ہی نئے دور کے نئے تقاضے اپنانا ہمارے لیے ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں کرپٹو کرنسی کا نمایا ں نام نظر آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ڈیجیٹل یا کرپٹو کرنسی کی بہت سی اقسام ہیں لیکن اس میں سب سے نمایاں حیثیت بٹ کوائن کو حاصل ہے۔ اس کو قریباً 12 سال قبل متعارف کرایا گیا تھا۔ تب اس کی قدر ایک امریکی ڈالر سے بھی کم تھی۔ مگر اس کی ڈرامائی مقبولیت نے اور لوگوں کی دلچسپی، خاص طور سے تیسری دنیا کے ممالک کے لوگوں کی دلچسپی نے، اس کی قمیت کو انتہائی بلند سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ان دنوں ایک بٹ کوائن پینسٹھ ہزار سے بھی زائد ڈالر میں خریدا جا رہا ہے۔
اس وقت یہ کئی بڑے عالمی سرمایہ کاروں کی نظر میں سب سے پسندیدہ ایسٹ ہے۔ لاطینی امریکی ملک ایل سیلواڈور اس کو قانونی قرار دے چکا ہے جبکہ دیگر کئی ممالک اس کے بارے میں قوانین وضع کر چکے ہیں تاکہ اس میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اسی وجہ سے اس کی قدر دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔
پاکستان میں بھی کرپٹوکرنسی میں لوگوں کی دلچسپی ازحد زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کوئی واضع اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں لیکن اس کو سرمایہ کاری کے لیے بہترین سمجھا جا رہا ہے۔ کئی نوجوان اس میں سرمایہ کاری کر کے راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھتے ہیں۔
لیکن کیوں کہ پاکستان میں اس کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے، اس لیے بہت سے لوگ آن لائن فراڈ اور دھوکا دہی کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں کہ پاکستانی اپنی محنت سے کمائی گئی دولت اور بچت کھو چکے ہیں۔
پاکستان کے مرکزی بینک نے 2018ء میں ڈیجیٹل کرنسی میں لین دین کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے لیے باقاعدہ جاری کردہ سرکلر میں یہ بات واضح طور پر یہ لکھا گیا تھا کہ ڈیجیٹل کرنسی میں تجارت اور سرمایہ کاری ممنوع ہے اور ایسی کسی سرگرمی کی اطلاع ہونے پر فوری طور پر مرکزی بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو مطلع کیا جائے۔ لیکن اس پابندی کے نتیجے کے طور پر ڈیجیٹل کرنسی کے بارے جعل سازی اور فراڈ کی سر گرمیاں بڑھ گئیں۔
سکیورٹیز اینڈ کمیشن آف پاکستان اور مرکزی بینک کے مطابق پابندیوں اور کرپٹو کرنسی کی تجارت کے غیرقانونی ہونے کے باوجود پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے، جہاں کے لوگوں نے کرپٹو کرنسی میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ لیکن چونکہ اس پر پابندی عائد ہے، اس لیے اس کے بارے میں عام لوگوں کے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اس کی خریدو فروخت کا طریقہ کار ابھی تک ایک عام شخص کے لیے معمہ ہے، اسی لیے اس میں دھوکا دہی کے امکانات اور شرح زیادہ ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں کرپٹو کرنسیوں کو مرکزی بینک کے تحت ریگولیٹ کیا جا رہا ہے اور اس کی ادائیگیوں اور وصولیوں کے لیے ایک مربوط طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ حال ہی میں چین نے ویسے تو بٹ کوائن جیسی روایتی کرنسیوں اور ان کی مائننگ پر پابندی عائد کی ہے لیکن چین اپنی کرپٹو کرنسی بھی لانچ کرنے والا ہے۔ چین کی کرپٹو کرنسی آزمائشی مرحلے میں ہے۔ پاکستان چونکہ چین کا اقتصادی شراکت دار ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جلد از جلد کرپٹو کرنسی کو لے کر قوانین وضع کر لیے جائیں تاکہ سرمایہ کاری، سیاحت، جدت اور اقتصادی ترقی کے خاطر خواہ فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کرپٹو کرنسی کے بارے ایک درخواست کے جواب میں عدالت کو بتایا گیا کہ جن افراد کے خلاف کرپٹو کرنسی کے حوالے سے شکایات درج ہیں، ان کے خلاف کارروائی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کرتی ہے اور پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت مقدمات دائر کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ایس ای سی پی کے قوانین میں ڈیجیٹل کرنسی کی رجسٹریشن کی اجازت نہیں ہے اور اس سے متعلق قانون خاموش ہے۔
مرکزی بنک کے موجودہ دائرہ اختیار میں صرف کمرشل بینک آتے ہیں، اس لیے کرپٹو کرنسی کی ریگولیشن میں کافی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ کیونکہ اس سلسلے میں مرکزی بینک کو کمرشل بینکوں کے علاوہ کاروباری حضرات کا تعاون بھی درکار ہے۔
میرے خیال سے یہ اس وقت کی عین ضرورت ہے کہ اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھایا جائے اور ایک قومی بحث کا آغاز کیا جائے تاکہ قانون سازی کی طرف قدم اٹھانا آسان ہو سکے۔ اسی ضمن میں جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔
اسی طرح سندھ ہائی کورٹ نے بھی کرپٹو کرنسی کے بارے میں ایک کیس کی سماعت کے بعد وفاقی حکومت کو تین ماہ کے اندر اس کو ریگولیٹ کر کے قانونی حیثیت کا تعین کرنے کا حکم دیا تھا لیکن معاملہ اس وقت دلچسپی اختیار کر گیا، جب ریگولیشن کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ، جو وفاقی سکریٹری خزانہ ہیں، نے کہا کہ انہیں کرپٹو کرنسی کے بارے معلوم نہیں کہ یہ کوئی سافٹ ویئر ہے یا کوئی اثاثہ؟
جبکہ مرکزی بینک کی گورنر نے بتایا کہ کرپٹو کرنسی کی تجارت کی اجازت نہیں ہے لیکن اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے جبکہ اپریل 2021ء سے مرکزی بینک کرپٹو کرنسی کے لین دین کو فریم ورک میں لانے کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے سخت ریگولیشنز کے بعد یہ وقت کی اشد ضرورت ہےکہ کرپٹو کرنسی کے بارے میں عدالتی احکامات کی روشنی میں قابل عمل قوانین بنائے جائیں۔ اس سے دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف جنگ میں مدد ملے گی۔