1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: گنجائش سے زیادہ بجلی، لوڈشیڈنگ پھر بھی بے قابو

عبدالستار، اسلام آباد
28 اپریل 2022

گنجائش سے زیادہ بجلی کی پیداواری صلاحیت رکھنے کے باوجود پاکستان کے کئی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا جن سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ اس صورت حال نے وزیر اعظم شہباز شریف کو فوری اقدامات کا حکم دینے پر مجبور کر دیا ہے۔

پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ
تصویر: Reuters

ملک کے دور دراز علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ  آٹھ سے بارہ گھنٹے اور کچھ علاقوں میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آج حکام کو تاکید کی ہے کہ وہ پہلی مئی تک اس لوڈ شیڈنگ کو ختم کریں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ وقتی طور پر تو حل ہو سکتا ہے لیکن مستقل طور پر اس کو حل کرنے کے لیے بہت ساری دشواریاں حکومت کو پیش نظر رکھنی پڑیں گی۔

بجلی کی سیاست اور جلد بازی کے منصوبے

واضح رہے کہ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ سن 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست کی وجہ لوڈشیڈنگ تھی۔ اسی سال جب ن لیگ کی حکومت آئی تو اس نے ترجیحی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم نون لیگ کی حکومت نے جلدی میں ایسے پاور پروجیکٹس  شروع کیے، جو بہت مہنگے تھے یا ان کو درآمد کردہ تیل پر رکھا گیا۔ اور جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں  بڑھیں تو ان کو درآمد کرنا مشکل ہوگیا، جس کی وجہ سے پاور پلانٹس صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی بجلی پیدا نہیں کر سکے۔

عالمی مالیاتی ادارے سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر نے سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے دو نظام  ہیں، جس میں ایک پورے پاکستان کے لیے ہے اور دوسرا کے الیکٹرک کے لیے ہے۔ پورے پاکستان کا جو نظام ہے اس کی پیداواری صلاحیت 36 ہزار 900 میگاواٹ ہے جبکہ کے الیکٹرک کی صلاحیت دو ہزار آٹھ سو اکتیس میگا واٹس ہے۔‘‘

ملک کی مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباﹰ 40 ہزار میگاواٹ ہے لیکن چار ہزار میگا واٹ اس لیے سر پلس  ہے کیونکہ جی ڈی پی گروتھ میں کمی ہوئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پاور پروجیکٹس اس لیے لگائے گئے تھے کیونکہ جی ڈی پی گروتھ کے بڑھنے کے امکانات تھے۔ لیکن کرونا کی وجہ سے اس شرح نمو میں کمی ہوئی ہے۔

عالمی اداروں سے معاہدے

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ کوئی بھی حکومت اقتدار میں آ جائے وہ بجلی کے مسئلے کو اس وقت تک حل نہیں کر سکتی جب تک وہ مختلف عالمی کارپوریشن سے کیے گئے معاہدوں کو یا تو منسوخ نہ کردے یا پھر ان کو اس طرح تبدیل کرے کہ اس سے پاکستان کو فائدہ ہوسکے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے انرجی کے ماہر حسن عباس کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہم نے طویل المدت کے معاہدے کیے ہیں اور اب بین الاقوامی قانون کے مطابق ان معاہدوں کی پاسداری ہم پر لازم ہے۔ ''اگر ہم معاہدوں کی خلاف ورزی کریں گے تو جس طرح ریکوڈک کے پروجیکٹ  میں ہم پر جرمانہ لگا ہے، اسی طرح ہم پر جرمانہ لگ سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے بہت سارے پلانٹس ایسے لگائے ہیں، جو امپورٹڈ تیل پر ہیں اور جب امپورٹڈ تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو ہمارا امپورٹ بل بڑھ جاتا ہے۔ حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ آئی پی پیز کو ایندھن فراہم کرے اور معاہدے کی شقیں ایسی ہیں کہ چاہے یہ آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ان کو ایک معین مدت تک ایک مختص رقم دی جاتی ہے۔ جب معاشی مشکلات کی وجہ سے حکومت یہ رقم نہیں دے پاتی، تو وہ بجلی پیدا کرنا بند کر دیتے ہیں، جس سے یہ پورا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘

تاہم ڈاکٹر خاقان نجیب، جو ماضی میں وزارت خزانہ میں مشیر رہ چکے ہیں، کا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی  مانگ کی وجہ سےبجلی کا بحران  پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ سرکلرڈیٹ، بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئلے اور ایندھن کی بڑھتی قیمتیں بھی موجودہ بجلی کے بحران کو شدید کر رہی ہیں۔‘‘

کیا اس کا کوئی حل ہے؟

حسن عباس کا خیال ہے کہ اگر حکومت سولر انرجی  کی طرف جائے، تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ''تاہم فوری طور پر طویل المدت معاہدوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوگا۔ جب یہ معاہدے ختم ہوجائیں تو پورے اخلاص کے ساتھ شمسی توانائی کی طرف جانا چاہیے۔‘‘

تاہم خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ حکومت کو پاور سیکٹر مارکیٹ کے اصولوں کے تحت چلانا چاہیے اور اسے حکومتی کنٹرول سے نکالنا چاہیے۔

علاوہ ازیں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں ایک مضبوط مافیا ہے جو تھرمل پاور کو فروغ دینا چاہتی ہے، جس سے پاور سیکٹر کے مالی اور فنی بحرانوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستان: بائیو گیس سے بجلی کی پیداوار کا بڑھتا رجحان

04:24

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں