1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں گیس کی قیمتوں میں چودہ سے دو سو فیصد اضافے کی منظوری، عوام پریشان

29 دسمبر 2011

پاکستان میں داخلی سلامتی اور سیاسی عدم استحکام کے مسائل سے دوچار عوام کے لیے حکومت نے نئے سال کے آغاز پر سوئی گیس کی قیمتوں میں 14 سے لے کر 200 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی ہے۔

تصویر: AP

یہ منظوری ایسے وقت میں دی گئی ہے جب ملک کے مختلف حصوں میں گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ پر عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان میں تیل و گیس کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے اوگرا کے مطابق اس سے قبل اگست میں گیس کی قیمتوں میں ساڑھے تیرہ فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ قدرتی گیس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں استعمال ہونے والی سی این جی کی قیمتوں میں بھی 64 فیصد اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک گھریلو خاتون کا کہنا تھا کہ ایک تو گیس آتی ہی نہیں اور اوپر سے اس کی قیمتوں میں اضافہ عوام سے بھیانک مذاق ہے۔انہوں نے کہا، ’’ ناشتے سے محروم ہو گئے ہیں، ایک روٹی یا پراٹھا تندور سے بارہ سے پندرہ روپے کا ملتا ہے، اگر پانچ لوگ ہوں تو سو روپے ناشتے میں لگا دیں تو دن کے کھانے پر کتنا پیسہ لگے گا۔‘‘

پاکستان میں گاڑیوں کی بڑی تعداد کمپریسڈ نیچرل گیس یا سی این جی پر چلتی ہےتصویر: AP

اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں خریداری کے لیے آئے ہوئے ایک شخص کا کہنا تھا، ’’پہلے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی تھی، اب اسی طرح گیس کی قیمتوں میں اضافے سے چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں۔ سی این جی پر گاڑیاں چلتی ہیں اور جب گیس نہ ملے تو گاڑیاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پھر ظاہری سی بات ہے مہنگائی بڑھتی جاتی ہے۔‘‘

دوسری جانب گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ ٹیکس کا نفاذ یکم جنوری سے ہوگا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ٹیکس مختلف شرح سے سی این جی، فرٹیلائزر بنانے والے اداروں اور نجی پاور کمپنیوں پر عائد ہو گا۔

پٹرولیم و قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں گیس کی قلت، گیس کا ضیاع وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لئے آئندہ دسمبر تک قدرتی مائع گیس بیرون ملک سے درآمد کرے گی ۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ گیس تو 18 ڈالر فی یونٹ کے حساب سے ملے گی، جسے عوام کس طرح برداشت کریں گے تو اس پر ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا، ’’یا تو 18 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو گیس لے لیں، جو دستیاب ہو گی، یا پھر گیس ہی نہیں ہو گی۔ آپ کی مرضی ہے جب گیس نہیں ہے تو پھر اس کی جو بین الاقوامی قیمت ہے اس پر لے لیں یا پھر کہیں کہ ہمیں چاہیے ہی نہیں۔ جب آپ اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو خریدیں بھی مت۔‘‘

اسلام آباد کی سبزی اور فروٹ منڈی میں بیٹھے ایک آڑھتی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے کھاد بنانے والے کارخانوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زائد اضافے سے اس کا اثر عام صارف پر بھی پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی این جی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان بھی عام صارف کی کمر توڑ دے گا۔ انہوں نے کہا، ’’ایک تو ہماری 80 فیصد سے زائد چھوٹی گاڑیاں سی این جی پر ہیں ان کو گیس نہیں ملتی جس سے ٹرانسپورٹیشن کی لاگت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ چھوٹا دکاندار جب ادھر سے پٹرول پر سامان لے کر جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں فروٹ اور سبزی اتنی مہنگی صارفین کو ملتی ہے کہ وہ بازار کا رخ ہی نہیں کرتے۔‘‘

پاکستان میں گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ پر عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہےتصویر: AP

پاکستان میں سال 2011ء کے دوران پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان اشیاءکی قلت نے عوام کو نہ صرف مختلف مسائل کا شکار کیے رکھا بلکہ وہ زیادہ وقت سڑکوں پر احتجاج ہی کرتے رہے۔


رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں