1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: نفرت انگیزجرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافہ

10 اکتوبر 2022

ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق قیام پاکستان سے لے کر اب تک توہین مذہب کے الزامات پر اسی افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت کو ان جرائم پر قابو پانے کے لیے ملزموں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

Pakistan Quetta Blockade der Flughafenstraße
تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، سیاستدانوں اور اقلیتی برادریوں کے ارکان نے ملک میں نفرت انگیز جرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافےپر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان تنظیموں اور افراد کا دعویٰ کہ ہے کہ سزا سے بچ جانےکا کلچر،  خوف کا عنصر، کچھ مذہبی گروہوں کا عروج اور ریاست کی غیر فعالیت  اس صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔

مذہب کا سیاسی استعمال: کئی حلقوں کو تشویش

توہین رسالت کے مقدمات: انتہائی احتیاط کا حکم، کئی حلقوں کی طرف سے خیرمقدم

یکم اکتوبر کو جنوبی پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک مدرسے کے ایک طالب علم نے مبینہ توہین مذہب کے الزام پر  پہلے ایک معذور شخص کو آگ لگائی اور جب متاثرہ شخص نے آگ بجھانے کے لیے قریبی تالاب میں چھلانگ لگائی تو حملہ آور نے اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ اس واقعے نے معاشرے کے کئی طبقوں کو خوفزدہ کر دیا۔ قتل کے اس واقع کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد معاشرے کے مختلف طبقے شدید تشویش کا شکار ہو گئے۔

اس ہولناک قتل سے پیدا ہونے والا خوف ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ مشرقی صوبے پنجاب میں ایک شیعہ مسلم عالم نوید عاشق کے قتل نے ملک کے کئی حصوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ اس سےقبل اسی صوبے کے ایک 'عالم دین‘ نے تجویز پیش کی تھی کہ حاملہ احمدی خواتین کو قتل کر دیا جائے۔ احمدی ایک اقلیتی مذہبی فرقہ ہے جنہیں پاکستان میں قانونی طور پر غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے زیادہ تر الزامات میں ذاتی مفادات، جائیداد کے تنازعات یا چھوٹے موٹے معاملات کو حل کرنے کے لیے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 1947ء سے 2021 ءکے درمیان 1415 افراد پر توہین مذہب کا الزامات لگائے گئے۔ اسلام آباد میں قائم ایک غیرسرکاری تھنک ٹینک  سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق اب تک  توہین مذہب کے الزامات میں ہلاک ہونے والے81 افراد میں سے  10 خواتین اور 71 مرد تھے۔

نفرت انگیز جرائم میں اضافہ

حال ہی میں صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے ایک اسکول سے چار طالبعلموں کو صرف اس لیے نکال دیا گیا کہ وہ احمدیہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جماعت احمدیہ پاکستان کے ایک ترجمان عامر محمودکے مطابق اسکول نے ان طالبعلموں کے اسکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ میں بھی لکھا کہ انہیں احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے۔  عامر محمود نے نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سوشل میڈیا ہماری کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز لٹریچر سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احمدیہ کمیونٹی کے خلاف بینرز، پوسٹرز اور معلومات کے دیگر ذرائع بھی استعمال کیے گئے، جو بعض معاملات میں توہین مذہب کے الزامات کا باعث بنتے ہیں۔ عامر محمود نے ڈی ڈبلیو کو  بڑی تعداد میں اپنی برادری کے خلاف نفرت پھیلانے  والے لٹریچر کی نقول بھی بھجوائیں ۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد بٹ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس طرح کے جرائم اور لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

نفرت پر مبنی جرائم اور توہین مذہب کے الزامات کو کس چیز نے بڑھاوا دیا؟

 انسانی حقوق کے کارکنوں کے خیال میں نفرت انگیز جرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافے کی وجہ کئی عوامل ہیں۔

سزا وجزا کا خوف نہ ہونا

 تجزیہ کاروں کے خیال میں استثنیٰ کا کلچر اقلیتی ارکان اور توہین مذہب کے ملزم مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ایک سنی انتہا پسند تنظیم کے ایک اجتماع نے کھلے عام شیعہ مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ 

اسد بٹ کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز نعروں اور تقریروں سے آنکھیں بند کرنا ان عوامل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے استثنیٰ کا یہ کلچر پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان جرائم اور الزامات کو روکنے کے اقدامات کرنے کے بجائے ُان طالبان اور انتہا پسند گروہوں سے  مذاکرات کر رہی ہے جنہوں نے عیسائیوں، احمدیوں اور بہت سے مسلمانوں اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو قتل کیا۔

 اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ریاست کا یہ رویہ انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں اور مسلم فرقوں کے خلاف زہر اگلنے کے علاوہ توہین مذہب کے ملزمان کو ہجوم کی شکل میں تشدد کا نشانہ بنائیں۔

خوف کا عنصر

صرف عام پاکستانی ہی نہیں بلکہ کچھ ہائی پروفائل شخصیات پر بھیتوہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ماضی میں موجودہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو ایک جنونی نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا جبکہ لاہور میں ایک انتہا پسند طالب علم نے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر جوتا پھینکا تھا۔

پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سعدیہ کا خیال ہے کہ انتہا پسند گروہ سماجی طور پر بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول یہ گروہ لوگوں کو ایک دوسرے پر توہین مذہب کا الزام لگانے والوں کے دعووں پر سوال اٹھانے سے روکتے ہیں۔ سعدیہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اگر کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تو لوگ بغیر کسی تحقیق کے ملزم کے گھر کے باہر اکٹھے ہو کر نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

مذہبی مدرسوں کی بہتات 

انسانی حقوق اور اقلیتوں کے لیے کام کرنے والے کچھ کارکنوں کا خیال ہے کہ مذہبی مدرسوں میں غیر منظم اضافےکی وجہ سے نفرت انگیز جرائم اور توہین مذہب کے الزامات کے دعووں میں اضافہ ہوا ہے۔ گھوٹکی میں معذور شخص کا قاتل ایک دینی مدرسے کا طالب علم بتایا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں مقیم ایک سیاسی کارکن نغمہ اختیار کہتی ہیں کہ سندھ میں دینی مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بیس سال پہلے سندھ میں ہمارے پاس زیادہ مدرسے نہیں تھے، اب  ہر علاقے میں مدرسے مل سکتے ہیں۔‘‘

کیا پاکستان میں توہین مذہب قانون پر نظر ثانی ممکن ہے؟

04:59

This browser does not support the video element.

تحریک لبیک پاکستان کا کردار

پاکستان میں گزشتہ چودہ سالوں کے دوران تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے نام سے ایک مذہبی تنظیم کی بے پناہ مقبولیت دیکھنے میں آئی ہے۔ سخت گیر نظریات کی حامل ٹی ایل پی  نے ملک میں توہین مذہب کے قوانین میں کسی بھی ترمیم کی سخت مخالفت کرتی ہے اور یہ اسی پس منظر میں 2017 ء میں بڑے پیمانے پر دھرنا دے کر اسلام آباد کو مفلوج کر چکی ہے۔ بہت سے ناقدین کا دعویٰ ہےکہ یہ تنظیم نہ صرف ملک کی اقلیتوں پر وحشیانہ حملے کرتی ہے بلکہ اپنےنظریات کو  چیلنج کرنے کی جرات کرنے والے کسی بھی شخص کو بھی نشانہ بناتی ہے۔

ٹی ایل پی نے چند سال قبل توہین مذہب کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ چند ہفتے قبل چنیوٹ میں ایک احمدی شخص کو قتل کرنے والے ایک جنونی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ٹی ایل پی کا پیروکار ہے۔

حکومتی مؤقف

حکومتی اتحاد میں شامل جماعت جمیعت علما اسلام کے ایک رہنما محمد جلال الدین ایڈوکیٹ اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہنفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئین کے تحت اقلیتوں کو تمام حقوق دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ پرانا ہے اور حکومت نفرت پھیلانے والے کسی بھی شخص کے ساتھ نرمی نہیں برت رہی ہے۔''جو کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، بشمول وہ لوگ جو نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ان واقعات کے ذمہ دار ہیں،'' یہ بالکل مختلف معاملہ ہے اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد(طالبان سے) بات چیت ہو رہی ہے اور آئین سے ماورا کچھ نہیں کیا جائے گا۔‘‘

ش ر / ع ت (ایس خان)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں