پاکستان نے افغان طالبان کو سمجھنے میں غلطی کی، خواجہ آصف
28 نومبر 2025
جرمن دارالحکومت برلن میں ڈی ڈبلیو کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سے جب سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کو سمجھنے میں کوئی غلطی کی؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا، ''میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہم نے غلطی کر دی۔ میں خود سمجھتا ہوں کہ ایک وقت تھا، جب میں سمجھتا تھا کہ یہ بڑے کمیٹڈ لوگ ہیں، دین کے ساتھ یا مذہب کے ساتھ ان کی بہت زیادہ کمٹمنٹ ہے۔‘‘
خواجہ آصف کے بقول افغان طالبان نے گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کے ساتھ جس طرح ڈیل کیا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مکمل طور پر ناقابال بھروسہ ہیں، ''ان پر کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا، وہ آپس میں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔‘‘
’ہائبرڈ نظام حکومت کی کامیابی کی دارومدار سول اور ملٹری اداروں پر‘
پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام حکومت کی کامیابی کی دارومدار سول اور ملٹری اداروں پر ہے۔ ملکی فوج کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں، یہ فوج جو ہے، پلیز سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ اس طرح مداخلت نہیں کرتی ہے، جس طرح ایوب خان، جنرل یحییٰ، ضیا یا مشرف نے کی۔ انہوں نے آئین توڑے، عدالت نے اس پر مہر لگائی اور اس حلال کو حرام کیا، یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
خواجہ آصف نے مزید کہا، ’’ہمارے یہاں سارے الیکشنز پر شکوک کا اظہار کیا گیا، لیکن اس کے باوجود اگر ہمارے سسٹم یا معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کے لیے اگر ذمہ داری فوج لے رہی ہے تو ہمارا اپنا ادارہ ہے، پاکستان کی فوج ہے نا، کوئی نوآبادیاتی فوج تو نہیں آئی ہوئی۔‘‘
ماہرین کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران وسیع قانونی اصلاحات اور علاقائی تنازعات نے فوجی ادارے کی طاقت کو مزید مستحکم کر دیا ہے، جس سے سول حکومت کا کردار کمزور ہوا ہے اور آرمی چیف کو بے مثال قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے تازہ آئینی ترامیم کو ''ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد کو مزید کمزور کرنے والا اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدامات عمران خان کی مقبولیت کے خوف سے کیے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان ذوالفقار بخاری کا دعویٰ ہے، ’’پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، چاہے وہآئینی ترامیم ہوں یا نئی متوازی فورسز، سب عمران خان اور ان کی مقبولیت کے خوف سے کیا جا رہا ہے۔‘‘
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو پاکستان میں جمہوری اداروں کی حیثیت مزید کمزور ہو سکتی ہے۔
پاکستانی وزیر دفاع کا انٹرویو ڈی ڈبلیو کے شعبہ اردو کے سربراہ عدنان اسحاق نے ستائیس نومبر کو برلن میں کیا