پاکستان نے مذاکرات کرائے، مگر افغانستان کو ابھی اعتماد نہیں
15 جولائی 2015پاکستانی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے افغان حکام اور طالبان کے درمیان مری میں پاکستانی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ خطے سے مسلم شدت پسندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان مذاکرات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس ISI کے سربراہ نے ذاتی دلچسپی لی۔ اس عمل میں شریک دو اعلیٰ پاکستانی فوجی حکام کے مطابق آٹھ جولائی کو دارالحکومت اسلام آباد کے قریبی علاقے مری میں ان مذاکرات کا انعقاد صرف اسی وجہ سے ممکن ہو سکا۔
یہ مذاکرات افغانستان میں گزشتہ طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کی ایک کوشش تھے، جس کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سن 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے اور وہاں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک عسکریت پسند دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف رہے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کی مخلصانہ کوشش وہاں تشدد میں کمی کا باعث بنے گی تاہم وہاں القاعدہ سمیت متعدد دیگر عسکری گروہ بھی موجود ہیں جب کہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے حامیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، جو اس تشدد کا دوسرا منبع ہیں۔
روئٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان حکام کو ان پاکستانی کوششوں اور نیت پر کئی طرح کے شکوک و شبہات بھی ہیں۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے میں اپنے روایتی حریف بھارت کے بڑھتے اثرورسوخ کے تناظر میں کشمیر اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کی امداد جاری رکھنا چاہتا ہے، تا کہ وہ انہیں بہ وقتِ ضرورت استعمال کر سکے۔ پاکستانی فوج ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی جمہوری حکومت اور فوج اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان میں جنگ پاکستانی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور عسکریت پسندوں کی طاقت میں اضافہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا باعث ہے۔
پاکستانی وزارت دفاع سے وابستہ ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے افغانستان میں قیام امن کو ملکی ’خارجہ پالیسی کا کلیدی ہدف‘ قرار دیا ہے۔