پاکستان نے کس آسانی سے خاشقجی کے قتل کو ’نظر انداز‘ کیا
24 اکتوبر 2018
صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے متعدد ممالک کی جانب سے سعودی سرمایہ کاری اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے سعودیوں کے شانے دبانے کا انتخاب کیا تا کہ امداد حاصل کی جا سکے۔ سوشل میڈیا کا رد عمل۔
اشتہار
پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، ’’پاکستانی وزیر خزانہ اسد عمر اور سعودی وزیر خزانہ محمد عبداللہ الجدعان نے مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس میں اتفاق ہوا ہے کہ سعودی عرب ایک سال کے عرصے کے لیے ادائیگیوں میں توازن لانے کے لیے تین ارب امریکی ڈالرز پاکستان میں جمع کرائے گا‘‘۔
اسی طرح تین ارب ڈالر تک کا قرضہ سعودی عرب سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر ادائیگیوں میں چھوٹ کی صورت دیا جائے گا۔
اسی ہفتے کے آغاز میں عمران خان نے اخبار ’ دی انڈیپینڈنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی حکومت کے ایک بڑے ناقد کے قتل نے انہیں حیرت زدہ کر دیا تھا لیکن ریاض کے ان کے دورے کا مقصد اپنے ملک کو تاریخ کے شدید ترین مالی بحران سے نکالنے کے لیے اس امکان کو استعمال کرنا تھا، ’’ہم قرض کے لیے بے تاب ہیں، جب تک ہمیں دوست ممالک یا عالمی مالیاتی ادارے سے پیسے نہیں ملتے، تو ہمارے پاس اپنے قرضے اتارنے، درآمدات یا دیگر ضروریات کے لیے زرمبادلہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا جب تک ہم قرضہ حاصل نہیں کریں یا باہر سے سرمایہ کاری نہیں ہو گی، ہمارے لیے واقعی مسائل ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں نے خاشقجی کے بیہیمانہ قتل پر عمران خان کی جانب سے آنکھیں بند کرنے اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ایک ایسے وقت میں قربت بڑھانے پر تنقید کی ہے، جب بین الاقوامی برادری ان پر دباؤ بڑھانے کی کوششوں میں ہے۔
صحافی عمر چیمہ نے اس موضوع پر اپنی طنزیہ ٹویٹ میں کہا: عمران خان ( آئی کے) نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ بے چین و بیتاب ہیں۔‘‘
سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ایک ایسے وقت پر ریاض کا دورہ کر رہے ہیں، جب خاشقجی کے قتل کے حوالے سے نئے شواہد کے سبب السعود خاندان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ بابر کی ٹویٹ کے مطابق، ’’بادشاہت کی تنہائی اور پریشانی کا شکار شہنشاہیت بظاہر فنانشل بیل آؤٹ کے لیے جگہ پیدا کرنے پر راضی دکھائی دیتی ہے۔‘‘
معروف ٹی وی اینکر طلعت حسین نے بھی سعودی عرب سے قرض لینے پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حسین نے ٹویٹ کیا، ’’شدید مالی مشکلات میں گھر ے ممالک کی جانب سے عوامی سطح پر یہ نہیں کہا گیا کہ ہم قرض کے لیے بے چین ہیں۔‘‘
دوسری جانب عمران خان کے حامی اس امدادی پیکج کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان ریاض حکومت کے ساتھ کوئی تنازعہ برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ سعودی عرب کئی دہائیوں سے پاکستان کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔
مشرف زیدی نے ٹویٹر پر لکھا: ’’سعودی عرب سے چھ ارب ڈالر کی امداد۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کا اچھا کام۔ پاکستان کو پیچیدہ علاقائی صورتحال اور نوجوانوں پر مبنی بے صبر معیشت سے بہت احتیاط کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ یہ ایک بہت اچھا آغاز ہے۔ لیکن اس سے اصلاحات کے لیے کچھ وقت حاصل ہو سکے گا۔ اصل مرحلہ اصلاحات ہیں۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
عمران خان کا دورہ ریاض کامیاب رہا یا ناکام؟ یہ ابھی وقت بتائے گا مگر انسانی حقوق کے کچھ علمبرداروں اور چند سیاسی ماہرین کو ابھی سے یہ خطرہ ہے کہ اس امداد سے پاکستان پر سعودی اثر و رسوخ بڑھے گا۔ پاکستان میں فرقہ واریت ایک عام سی بات ہے کیونکہ سعودی عرب اور ایران اس جنوبی ایشیائی ریاست میں ’پراکسی جنگ‘ لڑ رہے ہیں۔ ریاض سخت گیر سنی گروپوں، سیاسی جماعتوں اور مدرسوں کی حمایت کرتے ہوئے وہابی طرز کے عقائد کی ترویج میں مصروف ہے جبکہ تہران مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے مسلم اکثریت والے اس ملک میں شیعہ اسلام کی تشہیر کر رہا ہے۔