پاکستان: وزیر اطلاعات اور فوجی ترجمان کی مشترکہ پریس کانفرنس
29 جون 2009ایک طرف جنرل عباس نے طویل عرصے سے تشدد اور عسکریت پسندی کی نوعیت کے حوالے سے جاری بحث کے جواب میں سرکاری موقف کی وضاحت کی اور کہا کہ تمام علاقوں میں حکومتی عملداری بہرصورت قائم کی جائے گی : ’’ ہمارے نزدیک یہ قانون کی بالا دستی کی جنگ ہے، جس جگہ جس گروہ نے، گروپ نے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ہے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس گروہ کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ آپریشن نہ کسی قبیلے کے خلاف ہے اور نہ علاقے کے خلاف ہے۔ وہ گروپ دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہیں یہ پورا آپریشن اس گروہ کے خلاف کیا جا رہا ہے۔‘‘
اس موقع پر وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ بیت اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کے سر کی قیمت لگا کر حکومت نے ان دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے : ’’اگر ہم نے اس کے سر کی قیمت رکھی ہے یا دہشتگردوں کے سرکی قیمت رکھی ہے تو آج ہمارے جوان ، ہماری فورسز، ہمارے فوجی ہماری عوام، یہ اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہمیں ہر حال میں اس ملک کی ان سے جان چھڑانی ہے۔‘‘
پریس کانفرنس کے دوران جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ اتوار کے روز شمالی وزیرستان میں فوجی قافلے پر حملہ بلا اشتعال تھا اور حکومت مقامی رواج اور قانون کے مطابق بھرپور کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ جنرل عباس کے اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں اور قیادت کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان میں بھی ریاستی عملداری کی بحالی کےلئے فوجی مہم ناگزیر معلوم ہوتی ہے اور یوں 17 فروری 2008ء کو شمالی وزیرستان کے قبائل کے ساتھ کیا گیا امن معاہدہ بھی بظاہر خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس حوالے سے سرکاری ردعمل کی ایک اور وجہ بظاہر شمالی وزیرستان کے طالبان کے وہ ہتھکنڈے تھے جو انہوں نے تشدد پسندوں کے خلاف کارروائی رکوانے کی غرض سے فوج اور حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کئے۔
رپورٹ : امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر