پاکستان: وی پی این رجسٹریشن، صارفین کا تحفظ یا نگرانی؟
14 نومبر 2024پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے حکومت کی جانب سے وی پی این صارفین کی رجسٹریشن کے اقدام کو ملکی انٹرنیٹ صارفین کی سخت نگرانی اور سنسر شپ کے نفاز کی کوشش قرار دیا ہے۔ ان کارکنان کی جانب سے یہ ردعمل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے منگل کے روز صارفین کے لیے ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک ( وی پی این) کی رجسٹریشن کا عمل متعارف کرانے کے بعد سامنے آیا ہے۔
پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد پاکستان میں آئی ٹی اور ای کامرس کے شعبوں کے لیے ایک محفوظ ماحول کو فروغ دینا ہے۔ پی ٹی اے کی ترجمان ملاحت عبید نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وی پی این استعمال کرنے کے مجاز صارفین میں کاروباری ادارے، سفارتخانے، حکومتی تنظیمیں اور فری لانسرز شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، "یہ عام آدمی کے لیے نہیں بلکہ کاروباری اداروں کے لیے ہے تاکہ وہ اپنے معاملات کو بلا رکاوٹ چلائیں۔"
جب ملاحت سے عام لوگوں کی مشکلات کے حل کے بارے میں سوال کیا گیا، جو روزمرہ کے امور جیسے واٹس ایپ کالز کرنا، وائس نوٹس اور دستاویزات بھیجنا اور مختلف تعلیمی ویب سائٹس تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال کرتے ہیں، تو پی ٹی اے کی ترجمان نے کہا کہ ان کے ادارے کا اس سے کچھ لینا دینا ہے انہوں نے مذکورہ مسائل کی وجہ ''انٹرنیٹ کی سست رفتار‘‘ کو قرار دیا۔
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے صارفین وی پی این کے استعمال میں مشکلات کا سامنا کرنے کی شکایت کرتے آئے ہیں تاہم پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں اس کا کسی قسم کا کوئی دخل نہیں ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس تک رسائی بند ہے مگر اس کے باجود قانون سازوں، صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں سمیت صارفین کی ایک بڑی تعداد وی پی این کے ذریعے ایکس کا استعمال کر رہی ہے۔
’آزادی اظہار پر حملہ‘
وکیل اور ڈیجٹل حقوق کی کارکن نگہت داد کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے کا یہ اقدام پاکستانی عوام کے آزادی اظہار کے حق پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ بھی بہت عجیب ہے کہ حکمران طبقہ عام آدمی سے بات چیت کے لیے ایکس کا استعمال کرتا ہے اور عام آدمی کو وی پی این کے ذریعے اس پلیٹ فارم تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تو پی ٹی اے یا اس کے پیچھے جو بھی لوگ ہیں جو یہ کر رہے ہیں وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، "جو بھی یہ اقدامات کر رہا ہے وہ اپنے اقدامات کے وسیع تر نتائج کو دیکھنے میں ناکام ہے۔ یہ ملک کو تاریک دور میں دھکیل رہے ہیں اور معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچائیں گے۔‘‘ ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ ہارون بلوچ کے مطابق حکومت ملک میں تنقیدی سوچ دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’وہ عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت صرف سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت وی پی این کو وائٹ لسٹ نہیں کر رہی بلکہ معاشرے کے بڑے حصے کو بلیک لسٹ کر رہی ہے، جو اس حکومتی پورٹل پر وی پی این کو رجسٹر نہیں کرا سکتے۔
اتھارٹی کے اقدامات کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں
نگہت داد نے کہا، "آزادی اظہار کے علاوہ رازداری کا حق بھی لوگوں کا بنیادی حق ہے اور آئین اس حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "وی پی این پوری دنیا میں استعمال کیے جاتے ہیں اور حکومت اس طرح سے ان کے استعمال کو روک نہیں سکتی۔ اس اقدام سے معیشت بھی متاثر ہوگی کیونکہ بہت سے لوگ آن لائن کاروبار اور عالمی کلائنٹس کو خدمات فراہم کرتے ہیں"۔
ہارون بلوچ نے کہا، "پی ٹی اے کو کیسے پتا ہے کہ لوگ ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وی پی این استعمال کرتے ہیں۔ لوگ تعلیمی اور خبری ویب سائٹس تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال کرتے ہیں جو پی ٹی اے نے پورن سائٹس کے نام پر بند کی ہیں۔ اس طرح یہ لوگوں کے علم کی رسائی کے حق پر بھی ضرب ہے"۔
کاروباری طبقے کی رائے
چیئرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن سجاد مصطفی سید نے کہا، "ہم اب بھی پی ٹی اے کی جانب سے اعلان کردہ پالیسی کے کاروبار پر اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ یہ پالیسی ہماری تمام مشکلات حل نہ کرے۔ ہمیں شاید ملک کے باہر سے سرور خریدنے پڑیں اور یہاں ہمیں وی پی این کے لیے بھی ادائیگی کرنی پڑے گی، جس سے ہمارے کاروباری اخراجات بڑھ جائیں گے۔"
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی بھی ملک کے لیے اسٹَیٹِک وی پی این حاصل کرنے کے حوالے سے کچھ مخصوص تعداد مقرر ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ پاکستان کتنے اسٹَیٹِک وی پی این حاصل کر سکتا ہے، لیکن یہ یقیناً 2.5 ملین نہیں ہوں گے، جو کہ آئی ٹی کاروبار سے وابستہ افراد کی تعداد ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کو کسی بھی پالیسی کو حتمی شکل دینے سے پہلے ان سے مشاورت کرنی چاہیے، کیونکہ ہم پالیسیوں کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ ایک بہتر حل تک پہنچنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’حکومت پاکستان کا مقصد آئی ٹی برآمدات کو 25 بلین ڈالر تک پہنچانا ہے، لیکن اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ دیگر ممالک، جو آئی ٹی برآمدات میں سب سے آگے ہیں، کن اقدامات کو اپنائے ہوئے ہیں۔‘‘