پاکستان ٹائیفائیڈ کی نئی ویکسین استعمال کرنے والا پہلا ملک
16 نومبر 2019
پاکستان ٹائیفائیڈ کے علاج کے لیے ایک نئی ویکسین استعمال کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان کو اپنے ہاں اس مرض کی ایک نئی وبا کا سامنا ہے۔ یہ نئی دوائی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی منظور شدہ ہے۔
اشتہار
پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق حکام نے بتایا کہ اس جنوبی ایشیائی ریاست کو اپنے ہاں مہلک ثابت ہو سکنے والی اس بیماری کا سبب بننے والے ایک ایسے جرثومے کا سامنا ہے، جس نے ٹائیفائیڈ کی اب تک مروجہ ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لی تھی اور اسی لیے معمول کی ادویات مؤثر ثابت نہیں ہو رہی تھیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی منظور شدہ یہ ویکسین پاکستانی صوبہ سندھ میں اس ویکسینیشن مہم کے دوران استعمال کی جائے گی، جو دو ہفتے تک جاری رہے گی۔
ذیابیطس سے محفوظ رہنا ممکن ہے
ذیابیطس کی پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں۔ اس کی ایک قسم ’ذیابیطُس ٹائپ ٹو‘ سے بچاؤ آسان ہے۔ بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے صحت مند رہا جا سکتا ہے۔
تصویر: Colourbox/L. Dolgachov
زیادہ وزن خطرناک ہے
وزن کی زیادتی یقینی طور پر ایک خطرناک علامت ہے۔ اگر آپ کا وزن بہت زیادہ ہے تو پھر آپ ذیابیطس کی راہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وزان کم کرنے کی کوشش بہت ضروری ہے
زیادہ وزن کو کم کرنے کے لیے خوراک پر کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلی ورزش، جاگنگ، یا پیدل چلنا بہت ضروری خیال کیا گیا ہے۔ تیس سے ساٹھ منٹ کی ورزش یا واک بہت اہم ہے۔
تصویر: Ronaldo Schemidt/AFP/Getty Images)
چیپس کھانے سے گریز کریں
چیپس یا ایسی دوسری تلی ہوئی خوراک کھاتے رہنا کسی بھی طور پر صحت مندانہ عادت نہیں ہے۔ ایسی عادتوں سے ذیابیطُس کی ٹائپ ٹُو یا diabetes mellitus کا لاحق ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے۔
تصویر: DW/E. Grenier
منہ کا ذائقہ، موٹاپے کو دعوت دینا ہے
چیپس، چاکلیٹ، پیزا، کیک اور ایسی دوسرے فوڈ آئٹمز’جنک فوڈ‘ میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسی اشیا کو ’کیلوریز بم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک منٹ کے لیے انسانی منہ میں رہتی ہیں لیکن ان سے بننے والی چربی ساری عمر ساتھ نہیں چھوڑتی۔
تصویر: Colourbox
پھلوں سے رغبت پیدا کریں
ماہرینِ خوراک کا خیال ہے کہ چاکلیٹ یا کیک کھانے کی شدید طلب ہو رہی ہو تو ایک سیب یا ایک ناشپاتی زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے منہ کے ذائقے کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔
تصویر: Colourbox
کھانا پکانے کا انداز تبدیل کریں
کھانا پکاتے ہوئے صحت مندانہ طریقہ یعنی کم گھی کا استعمال ایک مناسب انداز ہے۔ مچھلی یا گوشت کے ٹکڑوں کو تیل میں فرائی کرنے کے بجائے اسٹیم کے ذریعے پکائیں۔ جتنی چربی یا گھی انسانی بدن کے اندر جائے گا، اتنا ہی خطرناک ہو گا۔
تصویر: DW/A. Islam
مشروبات سے بھی گریز
بازار میں دستیاب مشروبات سے بھی گریز کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک گیس والی بوتل میں چھتیس چینی کے کیوبز کے برابر شکر ہوتی ہے۔ کسی مشروب کی طلب کے وقت پانی یا چائے کا استعمال بہتر ہوتا ہے، بس اس کے لیے عادت بنانی پڑتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/A. Devlin
تازہ پھلوں یا سبزیوں کا جوس
مشروبات کے متبادل کے طور پر تازہ پھلوں یا سبزیوں کا جوس یا ’سمُودی‘ کا استعمال ایک صحت مند رویہ خیال کیا جاتا ہے۔ سمودی سے لذت اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔
تصویر: Colorbox/M. Anwarul Kabir Choudhury
بیئر بھی وزن بڑھاتی ہے
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ الکوحل کے حامل ڈرنکس وزن بڑھاتے ہیں۔ نصف لٹر بیئر میں دو سو کیلوریز ہوتی ہیں۔
تصویر: Fotolia/Alexander Raths
شراب بھی مضر صحت ہے
الکوحل یا شراب پینے سے بھی وزن بڑھتا ہے۔ نصف لٹر شراب یا وائن میں تین سو کیلوریز ہوتی ہیں۔ زیادہ وزن رکھتے ہوئے شراب کے استعمال سے خون میں شکر کی مقدا بڑھ جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Foodfolio
کافی پیئں جی بھر کے
کافی بڑے شوق سے استعمال کریں۔ طبی ریسرچر نے پتا چلایا ہے کہ کافی میں ایسا مواد ہوتا ہے انسانی بدن میں چینی کے میٹابولزم کے کنٹرول کا باعث بنتا ہے۔ ایک عام آدمی کافی کے چھ کپ روزانہ کی بنیاد پر پی سکتا ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker/siepmann
اچھی نیند صحت کی ضمانت
نیند سے بہتر کوئی دوا نہیں۔ بہتر نیند کے حامل لوگ صحت مند ہوتے ہیں۔ بہتر نیند کے ساتھ ورزش ایک طرح سے سونے پر سہاگے کے مساوی قرار دی جاتی ہے۔ نیند کے دوران بھی بدن کی کیلوریز استعمال ہوتی ہیں اور چربیلے مادے ٹوٹتے ہیں۔
تصویر: Colourbox/Production Perig/P. Morisse
12 تصاویر1 | 12
سندھ پاکستان کا وہ صوبہ ہے، جہاں 2017ء سے اب تک ٹائیفائیڈ کے 10 ہزار سے زائد نئے کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
اس بارے میں سندھ کی خاتون وزیر صحت عذرا پیچوہو نے کراچی میں بتایا کہ جمعہ پندرہ نومبر سے شروع ہونے والی اس ویکسینیشن مہم کے دوران ملک کے اس جنوبی صوبے میں نو ماہ سے لے کر 15 برس تک کی عمر کے 10 ملین سے زائد بچوں کو یہ ویکسین پلائی جائے گی۔
یہ نئی ویکسین 'گاوی‘ نامی ویکسین الائنس کی طرف سے پاکستان کو مفت مہیا کی گئی ہے۔ دو ہفتے دورانیے کی اس مہم کے بعد یہ ویکسین سندھ میں بچوں کو طبی حفاظتی قطرے پلانے کے معمول کے پروگراموں میں شامل کر دی جائے گی اور آئندہ برسوں میں اسے پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی متعارف کرا دیا جائے گا۔
پاکستان اپنے قومی وسائل کا ایک بہت معمولی سا حصہ صحت عامہ کے پروگراموں پر خرچ کرتا ہے اور ملکی عوام کی ایک بڑی اکثریت ٹائیفائیڈ سمیت کئی مختلف متعدی بیماریوں کا شکار ہو جانے کے خطرے سےد وچار رہتی ہے۔
پاکستانی حکومت، عالمی ادارہ صحت اور 'گاوی‘ (Gavi) کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق 2017ء میں پاکستان میں ٹائیفائیڈ کے جتنے بھی نئے کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے، ان میں سے 63 فیصد واقعات میں اس مرض کا شکار ہونے والے افراد کم عمر شہری تھے جبکہ دو سال قبل اس مرض کے باعث ہلاک ہو جانے والے پاکستانیوں میں سے 70 فیصد بچے تھے۔
م م / ع ح (اے ایف پی)
خشک سالی اور مشکلات کا شکار صحرائے تھر
پاکستانی صوبہ سندھ کا ریگستانی علاقہ تھر ان دنوں شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ پانی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اور پھر بیماریوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں افراد کی جان لی ہے جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
آبائی علاقے سے نقل مکانی
خوراک کی کمی کے باعث ایک خاندان اپنے جانوروں سمیت تھر میں اپنا مستقل مسکن چھوڑ کر ایسے علاقے کی طرف رواں دواں ہے، جہاں کم از کم دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کو جگہ میسر ہو سکے۔ تھر میں خشک سالی کے باعث جانوروں کی بیماریاں بھی پھوٹ پڑی ہیں، جن کی وجہ سے جانور بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
بارش میں کمی خشک سالی کا باعث
تھرپارکر کے علاقے میں گزشتہ برس بارش میں 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس ضلع کے علاقے ڈپلو، چاکرو اور اسلام کوٹ تو بارش کی بوندوں کے لیے ترستے ہی رہے۔ یہی علاقے پانی کی شدید قلت اور خشک سالی کا شکار ہیں۔ ان علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والی خواتین مٹھی کے قریب ایک گاؤں میں ایک کنویں سے پانی نکال رہی ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
ناکافی طبی سہولیات
تھر کے قریبی شہر مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں زیر علاج ان بچوں کے لیے نہ تو مناسب تعداد میں بستر موجود ہیں اور نہ ہی ادویات۔ تصویر میں نظر آنے والی مائیں ایک ہی بیڈ پر پڑے اپنے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
پانی زندگی ہے
ایک ننھی بچی کنویں سے نکالے گئے پانی سے اپنی پیاس بجھا رہی ہے۔ بارش نہ ہونے کے باعث خشک سالی کا شکار ہونے والے علاقوں میں بچوں کو پانی اور خوراک کی کمی سے ہی نہیں پالا پڑتا بلکہ بیماریاں بھی ان کی زندگی کے لیے شدید خطرات کا باعث ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
پانی کے حصول کے لیے مشقت
تھر سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین صحرا میں ایک کنویں سے پانی نکال رہی ہیں۔ بھارت کی سرحد تک پھیلے ہوئے اس صحرا میں جو تھوڑی بہت کھیتی باڑی ہوتی ہے، اس کا انحصار بارش پر ہوتا ہے۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں یہاں کے لوگ بالخصوص کسان خوراک کی شدید قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
امدادی خوراک پر گزارا
ضلع تھرپارکر میں قائم ایک امدادی کیمپ میں مقیم یہ خاندان حکومت اور مختلف امدادی اداروں کی طرف سے ملنے والی خوراک پر گزر بسر کر رہا ہے۔ شدید خشک سالی کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر خبریں شائع ہونے کے بعد یہ علاقہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
روزمرہ استعمال کے لیے پانی
دو خواتین دور دراز علاقے میں واقع ایک کنویں سے گھریلو استعمال کے لیے پانی لے کر جا رہی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی قلت کے باعث ان خواتین کے روزمرہ کاموں میں یہ کام بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ میلوں کا سفر پیدل طے کر کے پانی لائیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
غربت اور بیماریاں، اموات کی ایک وجہ
مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں اب تک 97 بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے اس سرکاری ہسپتال کے ذرائع کے مطابق گزشتہ برس دسمبر سے اب تک ہونے والی ان اموات کی وجہ تھر کے علاقے میں پھیلنے والی مختلف بیماریاں تھیں۔