پاکستان: ٹرانس جینڈر افراد کو محفوظ سرجری کے لیے درپیش مسائل
26 اکتوبر 2025
پاکستان میں، جہاں حال ہی میں جنس کی تصدیق (جینڈر افرمیشن) کی سرجری کو قانونی حیثیت دی گئی ہے، بنٹی ان چند ٹرانس جنڈر خواتین میں سے ایک ہیں جو یہ سرجری محفوظ طریقے سے کروانے میں کامیاب ہو سکیں۔
بنٹی، جنہوں نے اپنی جنس کی تبدیلی کے بعد خاندانی نام ترک کر دیا، نے بتایا کہ وہ لاہور کے واحد مستند اور تجربہ کار ڈاکٹر کے پاس گئیں جو ٹرانس جینڈر خواتین کے لیے بریسٹ ایمپلانٹ سرجری کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ عمل کامیاب رہا، لیکن بنٹی نے کہا کہ یہ "خفیہ" طریقے سے کیا گیا اور ایک عام عورت کی اس طرح کی سرجری کے مقابلے میں دوگنا خرچ آیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''مجھے صرف دو گھنٹے کے لیے اسپتال میں رکھا گیا اور پھر فوراً نکال دیا گیا تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ میں شدید تکلیف میں تھی۔‘‘
یہ بنٹی کے لیے ایک اور ذلت آمیز تجربہ تھا، جنہیں ان کی صنفی شناخت کی وجہ سے خاندان نے مسترد کر دیا، اور پھر وہ نوکری سے بھی نکال دی گئیں جس سے وہ اسپتال کا خرچ اٹھا رہی تھیں، جس کے بعد انہیں مجبوری میں جنسی کام کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ اسپتال نہیں چاہتا تھا کہ ان کی سرجری کی خبر ڈاکٹروں یا مریضوں تک پہنچے جو اس کی مخالفت کر سکتے تھے۔
ڈاکٹر مدثر محبوب نے، جو قانونی جینڈر افرمیشن سرجری کرتے ہیں، نے کہا، ''جنس کی تبدیلی اب بھی ایک متنازع موضوع ہے۔‘‘
محبوب نے بتایا کہ انہوں نے اسلام آباد میں کام کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ اپنے قدامت پسند آبائی صوبے خیبر پختونخوا میں تنازع سے بچ سکیں۔
انہوں نے ایسے مریضوں کا علاج کیا ہے جنہیں جعلی 'ڈاکٹروں‘ نے نقصان پہنچایا تھا۔ انہوں نے بتایا، ’’ان میں سے ایک، جسے ایک جعلی معالج نے خصی کر دیا تھا، میرے پاس آیا اور کہا کہ جو کچھ غلط ہوا ہے، اسے ٹھیک کریں۔‘‘
’خدا کا خوف کرو‘
ریم شریف، جو خواجہ سرا افراد کے ایک مشترکہ رہائشی گھرانے 'ڈیرا‘ کی رکن ہیں، نے کہا کہ پاکستان میں صرف دو ڈاکٹر ایسے ہیں جو عوامی طور پر قانونی اور محفوظ جینڈر افرمیشن کی سرجری کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری ہسپتال اکثر ایسے افراد کو واپس بھیج دیتے ہیں جو اس قسم کی خدمات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور اس کی وجہ مذہب کو قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''وہ کہتے ہیں: خدا کا خوف کرو، تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟‘‘
یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب ان کے اردگرد دیگر ٹرانس جینڈر خواتین میک اپ کر رہی تھیں اور اپنے بال سنوار رہی تھیں۔
سن دو ہزار اٹھارہ کے قانون کے مطابق جنس کی تبدیلی قانونی ہے، لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے، اور معاشرہ بھی اسے قبول نہیں کرتا۔
پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی درست تعداد کے بارے میں کوئی قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
یہ ملک طویل عرصے سے ایک تیسری جنس کو تسلیم کرتا آیا ہے، جسے مقامی طور پر "خواجہ سرا" کہا جاتا ہے، جو صدیوں سے معاشرے میں سماجی کردار ادا کرتے آئے ہیں، جیسے شادیوں اور بچوں کی پیدائش پر دعائیں دینا۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں منظور ہونے والے قانون کا مقصد ٹرانس جینڈر افراد کے سیاسی اور سماجی حقوق کو مضبوط بنانا تھا، کیونکہ ان کی وسیع تر شمولیت کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف تشدد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔
اگرچہ اس قانون کو دنیا بھر میں سراہا گیا، لیکن ملک کے اندر دائیں بازو کے مذہبی گروہوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی، جنہوں نے یہ غلط فہمی پھیلائی کہ یہ قانون ہم جنس شادی کی راہ ہموار کرے گا، حالانکہ پاکستان میں ہم جنس پسندی غیر قانونی ہے۔
یہ قانون اب بھی نافذ العمل ہے، لیکن اس پر عدالتوں میں چیلنجز جاری ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا یہ اسلامی قانون کے مطابق ہے یا نہیں، جو پاکستان کے سیکولر قانونی نظام کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
ماہرِ نفسیات ثنا یاسر نے کہا، ''ان قانونی چیلنجز کے آغاز کے بعد سے پچھلے تین سالوں میں میرے پاس سب سے زیادہ مریض اور فالو اپ کیسز آئے ہیں، کیونکہ ٹرانس جینڈر افراد کسی بھی ممکنہ قانونی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
حقوقِ انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانس جینڈر افراد جنہیں جنس کی تبدیلی میں مدد دی جاتی ہے، وہ بہتر معیارِ زندگی گزارتے ہیں، جبکہ جنہیں یہ مدد نہیں ملتی، ان میں ذہنی صحت کے مسائل، حتیٰ کہ خودکشی کے خیالات بھی زیادہ پائے جاتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر حقوق کے محقق اور کارکن مہلب شیخ کے مطابق، پاکستان کے مذہبی اور ثقافتی اصولوں کے مطابق، جنس کی خصوصیات کو تبدیل کرنے کے لیے سرجری کروانا ''گناہ‘‘ سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ جسم اور صنفی شناخت کو ہم آہنگ ہی کیوں نہ کرے۔
دیگر مسلم ممالک میں بھی جینڈر افرمیشن سرجری دستیاب ہے، جیسے مصر میں، جہاں یہ قانونی ہے لیکن صرف ڈاکٹروں اور مذہبی حکام کی منظوری سے ایسا کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، عملی طور پر اس تک رسائی انتہائی محدود ہے۔
ایران میں، جینڈر افرمیشن کیئر قانونی ہے اور حکومت کی جانب سے سبسڈی بھی دی جاتی ہے، لیکن کارکنوں کے مطابق، وہاں ٹرانس جینڈر افراد کو روزمرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دھمکیاں، تشدد، اور فخر
کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے، اگرچہ درست اعداد و شمار دستیاب نہیں کیونکہ زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
پاکستان میں "جینڈر انٹرایکٹو الائنس" کے مطابق 2022 سے اب تک 56 ٹرانس جینڈر افراد قتل ہو چکے ہیں۔
ان میں تین ٹرانس جینڈر خواتین بھی شامل ہیں جن کی گولیوں سے چھلنی لاشیں گزشتہ ماہ کراچی کے ایک سڑک کنارے سے ملی تھیں۔
اسلام آباد کے 29 سالہ ٹرانس جینڈر مرد، زارون اسحاق نے بتایا، ''میرے بھائی نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی اور کہا کہ یا تو مجھے گھر سے نکال دیا جائے یا وہ مجھے نقصان پہنچائے گا، کیونکہ اس کے بقول میں نے ان کی عزت اور شہرت کو برباد کر دیا ہے۔‘‘
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''تمام مشکلات کے باوجود تبدیلی کے بعد جو خوشی مجھے ملی ہے، وہ میرے لیے سب سے قیمتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میرا اصل وجود سامنے آ چکا ہے، اور میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔‘‘
ہارون، جن کا نام ان کی شناخت چھپانے کے لیے فرضی رکھا گیا ہے، نے کہا کہ ان کی تبدیلی نے انہیں آخرکار اپنے آپ سے ''بہت مطمئن‘‘ ہونے کا احساس دیا۔
انہوں نے خاندان اور کچھ ڈاکٹروں کی جانب سے مسترد کیے جانے کے باوجود بریسٹ ریموول اور باٹم سرجری کروانے میں کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''اگر آپ میں صلاحیت ہے، اگر آپ نے یہ قدم اٹھایا ہے اور فیصلہ کر لیا ہے، تو پھر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین