1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: پارلیمانی انتخابات میں مذہب کا سہارا

28 جون 2018

پاکستان میں انتخابات سے قبل کچھ حلقوں کی نظرمیں سیکولر ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے بھی اپنی مہم میں مذہبی بیانیہ اپنا رکھا ہے۔ یہ تاثر بھی ہے کہ جیسے نئی مذہبی سیاسی جماعتیں پرانی دینی جماعتوں کو بوسیدہ سمجھ رہی ہیں۔

Protest Pakistan Drone NATO
تصویر: picture-alliance/dpa

مذہب کے سیاست میں استعمال کے بارے میں اس پارٹی کا موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے پی ٹی آئی کے رہنما اور معروف تجزیہ نگار شفقت محمود سے پوچھا تو انہوں نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا کہ تحریک انصاف کوئی مذہبی بیانیہ اپنائے ہوئے ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت نے مذہبی مدارس کی بہت زیادہ فنڈنگ کیوں کی تھی؟ اس حوالے سے شفقت محمود نے کہا، ’’اس میں کوئی بری بات نہیں۔ مدرسوں میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ بھی پاکستانی ہیں، ان کا بھی سرکاری فنڈز پر اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی دوسرے پاکستانی کا۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایسی ہی فنڈنگ اسکولوں کی نہیں ہونی چاہیے تھی؟ اس سوال کے جواب میں تحریک انصاف کے اس سیاست دان نے بتایا، ’’ضرور ہونی چاہیے فنڈنگ، مدارس کی بھی اور اسکولوں کی بھی۔ دونوں کا نصاب ایک جیسا ہونا چاہیے، یا یہ کہہ لیں کہ مدارس کا تعلیمی نصاب مزید بہتر بنایا جانا چاہیے۔ لیکن یہ اعتراض تو بنتا ہی نہیں کہ مدرسوں کی فنڈنگ کیوں کی گئی؟‘‘

تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash

پاکستان میں سالہا سال سے الیکشن جیتنے کے لیے سیاست میں مذہب کا سہارا لینا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے، اس موضوع پر پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ سربراہ قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’دراصل پاکستان میں جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت کے دور سے مذہبی معاملات کو اتنا اہم اور لوگوں کو مذہبی حوالے سے اتنا حساس بنایا جا چکا ہے کہ اب ساری ہی سیاسی جماعتیں خود کو مجبور سمجھتی ہیں کہ وہ مذہبی حوالوں کے ساتھ یا پھر مذہبی بیانیہ لے کر ہی انتخابی میدان میں اتریں۔‘‘

 'انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگا دیاگیا ہے ‘

سیاسی جماعتوں کی سطح پر پاکستان میں پائے جانے والے تضادات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قبلہ ایاز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستانی سیاسی جماعتوں کی بہت بڑی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ صرف ووٹ لینے کے لیے مذہبی بیانیے اپنائے ہوئے ہیں۔ لیکن ہونا یہ چاہیے کہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ یعنی سوچ، بیانات اور عمل سب باہمی طور پر ہم آہنگ ہوں اور ایک پہلو دوسرے کی تائید کرے۔ لوگوں کو دھوکا دیا جائے گا تو غیر تعمیری اور منفی سوچ مزید پھیلے گی۔‘‘

تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash

اسی بارے میں پشاور یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر دوست محمد نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’پاکستانی آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اس ملک میں نہ تو قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی ہو سکتی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی قانون نافذ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا کوئی ایک بھی سیکولر پارٹی اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں مذہب کا سہارا لیتی ہے، اپنی پالیسی میں نہیں تو جلسے جلوسوں میں۔ پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کو ہی لے لیں، ان کا تو نعرہ ہی یہ تھا، ’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے‘۔ تب کئی مذہبی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا کہ اسلام کو دین مان لیا جائے تو دین تو ایک جامع ضابطہ ہوتا ہے، جس میں معیشت، معاشرت، ثقافت، عقائد اور نظام حکومت سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر دین اسلام ہے، تو پھر معیشت سوشلسٹ کیوں ہو؟ اس اعتراض کے خلاف تب ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے موقف کا دفاع نہیں کر سکے تھے۔‘‘

ڈاکٹر دوست محمد کے مطابق پاکستان کو ایک بڑے مسئلے کا شدت سے سامنا ہے، ’’ہمارے ہاں دو طرح کی شدت پسندی پائی جاتی ہے۔ ایک سیکولر شدت پسندی اور دوسری مذہبی شدت پسندی۔ بہت سے سیکولر تو مذہب کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ دوسری طرف مذہبی شدت پسند جو کچھ کرتے ہیں، وہ تو پاکستان اور پاکسستانی عشروں سے بھگت ہی رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اگر مذہب کے نام پر ووٹ لیتی ہیں، تو محض اس لیے کہ عوام کی اکثریت مذہب پر آنکھیں بند کر کے اور بلا جھجک یقین رکھتی ہے۔ لیکن زیادہ تر مذہبی پارٹیاں مخلص نہیں ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو بڑے بڑے جلوس نکالتی اور مظاہرے کرتی ہیں، لیکن کیا مثال کے طور پر انہوں نے سود اور سودی نظام معیشت کے خلاف بھی کبھی کوئی مظاہرہ کیا ہے یا دھرنا دیا ہے؟‘‘

’شدت پسند اہل، اور سیاست دان نا اہل‘

چند ماہرین کا کہنا ہے کہ جب مذہبی اور غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے مابین مذہبی معاملات میں مقابلہ بڑھ جاتا ہے، تو بعض اوقات اس کا نتیجہ ایک یا ایک سے زیادہ نئی مذہبی سیاسی تحریکوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کی مثال پاکستان میں ماضی قریب میں وجود میں آنے والی دو ایسی نئی مذہبی سیاسی جماعتوں کی ہے، جو پہلے سے موجود بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی کم مذہبی قرار دیتی ہیں۔ یہ دو سیاسی مذہبی جماعتیں حافظ محمد سعید کی بنائی ہوئی ملی مسلم لیگ اور مولانا خادم رضوی کی تحریک لبیک ہیں۔ یہ دونوں مذہبی سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کی سیاست کو اپنے اپنے مذہبی سیاسی نقطہ نظر سے کمتر سمجھتی ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں