پاکستان پر اشرافیہ کا تسلط اور آئی ایم ایف کا مطالبہ
20 فروری 2023
پاکستانی معیشت پر اشرافیہ کے تسلط کی بحث ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے لیکن اسے ایک نئی جہت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کے اس بیان سے ملی کہ پاکستان اپنے ہاں غریب شہریوں کا تحفظ کرے اور امیروں پر نئے ٹیکس لگائے۔
اشتہار
اقتصادی ماہرین اور سماجی تجزیہ کاروں میں یہ خیال عام ہے کہ پاکستان میں صنعت کاروں، جاگیرداروں، نوکر شاہی، ججوں اور فوجی جرنیلوں پر تو حکومت کی طرف سے عنایات کی بارش کی جاتی ہے مگر ملک کے آٹھ کروڑ سے زائد بہت غریب شہری بس غربت کی چکی میں پستے ہی رہتے ہیں۔
اشتہار
آئی ایم ایف کی سربراہ نے کیا کہا؟
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی خاتون مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے، جو گزشتہ برس آنے والے سیلابوں کی وجہ سے اقتصادی طور پر شدید متاثر ہوئے اور ان سیلابوں نے ملک کی تقریباﹰ ایک چوتھائی آبادی کو متاثر کیا۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت جن مالی اعانتوں کا اعلان کرتی ہے، ان کا فائدہ ان غریب شہریوں کو ہونا چاہیے، جو ان اعانتوں کے مستحق ہیں۔ کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے: ایک یہ کہ ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور جو لوگ پیسے کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔ دوسرے یہ کہ سبسڈی مخصوص ہونا چاہیے۔
مجھے پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے، آئی ایم ایف سربراہ
01:11
اشرافیہ کا تسلط
پاکستان میں ان دنوں مختلف اداروں اور افسران کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات زیر بحث ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں قائم اشرافیہ کے کلبوں، جن کی رکنیت کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، وہ کرائے کی مد میں سرکار کو انتہائی معمولی رقوم رقم ادا کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور اقدامات کے نام پر دے دیتا ہے۔ یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ہے۔
پاکستان کی معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان پر واقعی اشرافیہ کا تسلط ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے صنعت کار ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ہمارے جرنیلوں اور ججوں کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں، جو ایک طرح سے سبسڈی ہی کی ایک قسم ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے شہری اپنے بچوں کو بڑی تعداد میں کیمبرج امتحان دلواتے ہیں۔‘‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق صرف سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی اس اشرافیہ کا حصہ نہیں ہیں، ''فوجی جرنیل اور فوج کے کمرشل ادارے بھی ان سبسڈیزسے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے بہت سے تجارتی اور صنعتی اداروں کو رعایتیں دی جاتی ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی انہیں کچھ معاملات میں ٹیکسوں سے استثنیٰ دینے کی بات کی گئی تھی۔‘‘
عائشہ صدیقہ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اس لیے ہے کہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والے اشرافیہ کے ارکان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ''آپ پاکستان میں کسی بھی بڑے گھرانے کا تجزیہ کر لیں تو اس گھرانے کا ایک فرد کاروبار میں ہوگا، دوسرا زراعت سے وابستہ ہو گا، تیسرا بیوروکریسی میں، چوتھا فوج میں اور ایک ممکنہ طور پر عدلیہ میں بھی ہوگا۔ تو ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں، جس کی وجہ سے اس اشرافیہ کو توڑنا مشکل ہے۔‘‘
تاہم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں اگر جامع اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کرائی جائیں، تو اس تسلسل کو توڑنا ممکن ہے۔
پاکستان میں اسٹیل کی صنعت بھی تباہی کے دہانے پر
04:04
This browser does not support the video element.
قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ
معاشی امور کے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف خود ایک 'غریب دشمن‘ ادارہ ہے، جس کی پالیسیوں نے غربت کو فروغ دیا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ کا پاکستان کے حوالے سے بیان صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئی ایم ایف جس طرح کی پالیسیاں امریکہ، بھارت اور دوسرے ممالک کے تعاون سے پاکستان پر مسلط کر رہا ہے، اس سے صرف غریب عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نہیں دیکھتا کہ پاکستانی حکمران سرکاری رقوم سے مختلف ممالک کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور اس دوران بے تحاشا مالی وسائل خرچ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ادارہ ان کو قرض دیتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں نہ صرف حکمرانوں بلکہ آئی ایم ایف کا ہاتھ بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق پاکستانی حکومتیں کثیرالقومی کمپنیوں اور ملکی اشرافیہ کو زمین اور قدرتی وسائل اونے پونے داموں بیچ دیتی ہیں۔ ''ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملکی اشرافیہ سے ان کو بیچے جانے والے وسائل کی قیمتیں مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے وصول کی جائیں اور ججوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں کو حاصل تمام مراعات ختم کی جائیں۔‘‘
پاکستان: عوام کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا دو بھر
03:19
This browser does not support the video element.
آئی ایم ایف کی پالیسیاں 'اشرافیہ نواز‘ ہیں
پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں آئی ایم ایف پر تنقید کرنے والی ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فیصد جاگیردار 64 فیصد زرعی زمین پر قابض ہیں۔ لیکن حکومت ان پانچ فیصد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔‘‘
ڈاکٹر عذرا طلعت سعید نے کہا کہ آئی ایم ایف اس حقیقت کے باوجود کہ نجکاری نے ہمیشہ امیروں ہی کو فائدہ پہنچایا، آج بھی پاکستانی حکومت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ مزید نجکاری کرے۔ ''اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ لامحدود اشیاء درآمد کرے، جس سے زر مبادلہ کے کم ذخائر کم تر ہو جائیں گے۔‘‘
کئی دیگر ماہرین پاکستان کے موجودہ حالات کے لیے آئی ایم ایف کو نہیں بلکہ ملکی اشرافیہ اور حکمرانوں کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ریاست مشکل میں ہو، تو بین الاقوامی ادارے مدد کرتے ہی ہیں، جن میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔ لیکن یہ ادارے پاکستانی اشرافیہ اور حکمران طبقے کو یہ کیسے سمجھائیں کہ ان کی اقتصادی ترجیحات اور حکومتی کارکردگی شفاف، عوام کی خدمت پر آمادہ اور ملک کے مفاد میں ہونا چاہییں۔
دنیا کی کمزور اور مضبوط ترین کرنسیاں
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔