1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان پر بے نظير بھٹو کی موت کے لمبے سائے

27 دسمبر 2012

پانچ سال قبل بے نظير بھٹو کے قتل نے ايک ايسا بحران پيدا کيا تھا جس سے پيپلز پارٹی ابھی تک نہيں نکل سکی ہے۔

تصویر: dapd

پانچ سال پہلے بے نظير بھٹو کے بے دردی سے قتل کيے جانے پر پورے پاکستان اور دنيا بھر ميں اس کے اثرات محسوس کيے گئے تھے۔ اُن کی پارٹی ابھی تک اس صدمے سے نکل نہيں پائی ہے۔

پاکستان کی پہلی خاتون وزير اعظم اور اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پيپلز پارٹی کی قائد بے نظير کا تعلق پاکستان کے اُس طبقے سے تھا جو منہ میں سونے کا چمچہ لیے پیدا ہوتا ہے۔ 27 دسمبر 2007 کو ان کے قتل سے پورے پاکستان اور عالمی برادری کو ايک دھچکہ لگا تھا۔ سياسی شخصيات اور پاکستان کے عام لوگوں نے اس قتل سے اپنے اپنے نتائج اخذ کيے۔ سازش کے مفروضات پھيلتے چلے گئے اور اقوام متحدہ کا مقرر کردہ ايک کميشن ايک واضح تصوير پيش نہيں کر سکا جس کی بہت سخت ضرورت تھی اور ہے۔ موجودہ پيپلز پارٹی کی حکومت پر الزام ہے کہ اُس نے اس بھيانک قتل کے مجرموں کو منظر عام پر لانے کے ليے تگ و دو نہيں کی ہے۔ سياسی تجزيہ نگار ريٹائرڈ بريگيڈيئر فاروق حميد خان نے ڈوئچے ويلے کو بتايا: ’’بے نظير کی موت سے قيادت کا جو خلا پيدا ہوا ہے وہ آج تک پر نہيں ہو سکا ہے۔‘‘

ڈان ٹی وی کا فوٹو جس ميں بائيں طرف سياہ عينک پہنے مشتبہ مسلح قاتل اور اُس کے پيچھے مشتبہ خود کش حملہ آور کو دکھايا گيا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

بے نظير سياسی طور پر شروع ہی سے ايک معروف شخصيت تھيں۔ اُن کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاريخ کی اہم ترين شخصيات ميں شامل تھے۔ بے نظير نے اپنے والد کی زندگی اور موت سے اہم سياسی سبق سيکھے تھے۔ وہ ايک معتدل راہ پر چلتی رہيں ليکن وہ فوجی آمر ضياء الحق کے مقابل آنے سے خائف نہيں تھيں۔ 1988 کی اپنی انتخابی مہم ميں انہوں نے جنرل ضياء الحق پر تنقيد کی۔ اُن کی بہادرانہ روش نے انہيں انتخابات ميں جيت دلائی اور وہ دنيا ميں اپنی جمہوری قابليت کو تسليم کرانے ميں کامياب ہو گئيں۔

پاکستانی سياسی تجزيہ نگار حسن عسکری نے ڈوئچے ويلے کو بتايا: ’’انہيں اپنی پارٹی اور اُس کے باہر مقبوليت حاصل تھی۔ اُن کے مخالفين بھی يہ تسليم کرتے تھے کہ وہ بين الاقوامی سطح پر پاکستان کا تشخص تھيں۔ کسی بھی دوسرے پاکستانی کو اس قدر عالمی قدرومنزلت نہيں ملی جتنی کہ بے نظير کو۔‘‘

ليکن يہی بات پاکستانی سياست اور انتخابی نظام کا ايک معمہ بھی ہے کہ فوجی آمريت کے خلاف جدوجہد اور يہ حقيقت بھی کافی نہيں ہو سکی کہ وہ ايک ’شہيد باپ‘ کی بيٹی تھيں۔

قومی سياست ميں کاميابی کے ليے بے نظير کو طاقت کے مقامی مراکز کی طرف سے تسليم کيا جانا ضروری تھا جس ميں وہ 1988 سے 1990 اور 1993 سے لے کر 1996 تک کے اپنے دونوں ادوار حکومت ميں کامياب نہيں ہو سکيں۔ اُن پر بدعنوانی کی فرد جرم عائد کی گئی اور وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گذارنے کے ليے دبئی چلی گئيں۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے متنازعہ قومی مفاہمتی آرڈينینس NRO کے بعد وہ 2007 ميں پاکستان واپس آئی تھيں۔ اس آرڈينينس کے تحت اُن سياستدانوں اور بيورو کريٹس کو معافی دے دی گئی تھی جن پر کرپشن کے الزامات تھے۔

اُس وقت اس قسم کی قياس آرائياں تھيں کہ پاکستان پيپلز پارٹی اورنواز شريف کی مسلم ليگ ميں ايک بڑا اتحاد قائم کرتے ہوئے مخلوط حکومت بنائی جائے گی اور بے نظير تيسری مرتبہ وزير اعظم کے عہدے کی اميدوار ہوں گی حالانکہ آئين اس کی اجازت نہيں ديتا۔

صدر آصف زرداریتصویر: picture-alliance/ dpa

ليکن بے نظير کے قتل سے پورا منظر ہی تبديل ہو گيا۔ پی پی پی کے لیے ہمدردی کی لہر نے اُسے انتخابات ميں کامیاب کروا ديا اور بے نظير کے شوہر آصف علی زرداری صدر منتخب ہو گئے۔ حسن عسکری رضوی نے کہا: ’’ بے نظير کی موت کے دو نتائج تھے۔ مثبت اثر يہ تھا کہ لوگوں کو يہ احساس ہو گيا کہ انتہا پسندی ایک خطرہ ہے اور اُنہیں جمہوريت کا انتخاب کرنا چاہيے۔ منفی اثر يہ تھا کہ اُن کی موت نے پارٹی کے اندر قيادت کا ايک بحران پيدا کر ديا جو ابھی تک جاری ہے۔ بے نظير کو موجودہ قيادت سے کہیں زيادہ خارجہ سياست کا تجربہ تھا۔ اس بارے ميں صرف قياس آرائی ہی کی جا سکتی ہے کہ اگر بے نظير زندہ ہوتيں تو پاکستان کی سياست کچھ مختلف ہوتی، ليکن بہت زيادہ مختلف نہيں۔

A. Khan, sas/aba

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں