کیا اسلام آباد مغربی کیمپ کا حصہ بننے جارہا ہے؟
3 جولائی 2019امریکا کے زیرِ اثر عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان پر نوازشات کی بارش کر دی ہے۔ آئی ایم ایف چھ بلین ڈالرز دینے کی تیاری کر رہا ہے جب کہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک پاکستان کو قرضے دینے جارہے ہیں۔ برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک کی ترقیاتی ایجنسیاں بھی پاکستان کو کئی منصوبوں کے لیے امداد دینے کا عندیہ دے چکی ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق ایک برطانوی شہزادے اور شہزادی کی پاکستان میں جلد آمد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کو دورے کی دعوت دی ہے اور اس دورے سے پہلے بی ایل اے کو کالعدم قرار دے کر پاکستان کی مضبوط اسٹیبلشمنٹ کو خوش بھی کر دیا ہے۔ ایسی دعوت کسی بھی سربراہ حکومت کو کافی عرصے بعد دی گئی ہے۔ ان تمام اقدامات سے پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کہیں پاکستان ایک بار پھر مغربی کیمپ کا حصہ تو نہیں بن رہا ہے۔
پاکستان کے کئی حلقوں کا تویہ دعویٰ ہے کہ پاکستان اس کیمپ کا حصہ بننے نہیں جارہا بلکہ حصہ بن چکا ہے۔ معروف سیاست دان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے اسے بڑی حماقت قرار دیا ہے، ''ہم اس کیمپ میں پہلے ہی داخل ہو چکے ہیں۔ یمن میں ہمارے سپہ سالار اڑتیس ممالک کی فوجوں کی سربراہی کر رہے ہیں جب کہ ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ وہاں جنگ بندی کی جائے اور مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعے نکالا جائے۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکا، سعودی عرب اور ان کے اتحادی اور دوسری طرف یمنی لوگ۔ تو یہ واضح ہے کہ ہم اس کیمپ کا حصہ بن چکے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکی امداد اور نوازشات بغیر مفادات کے نہیں ہیں،''ہم سے کہا جائے گا کہ ہم چین سے دور ہو جائیں اور خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے اسٹریٹیجک مفادات کے بھی ساتھ رہیں۔ ہم نے ان کے کہنے پر ایران پاکستان پائپ لائن کا پروجیکٹ ترک کیا اور اب یمن میں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن مغرب کے ساتھ جانا دانشمندی نہیں ہے کیونکہ امریکہ و مغرب ایک ڈوبتہ ہوا جہاز ہے جب کہ چین ابھرتی ہوئی طاقت ہے، جس کا اب فوجی بجٹ بھی دو سو بلین ڈالرز سے زیادہ ہے۔‘‘
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہم جو امریکی کیمپ کی طرف جارہے ہیں، اس کی معاشی اور سیاسی دونوں طرح کی قیمتیں ادا کرنی پڑیں گی۔ معروف معیشت دان ڈاکڑ عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان چین سے دور ہوتا جا رہا ہے، ''میں ابھی سکھر سے گزر رہی ہوں اور مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی ہے کہ جس رفتار سے سی پیک پروجیکٹس پر گزشتہ برسوں کام ہورہا ہے تھا، اس کے مقابلے میں اب یہ حیرت انگیز طور پر سست ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ہم چینی کیمپ سے نکل کر ایک بار پھر مغربی کیمپ میں جارہے ہیں۔ جی ایم او فصلوں کو اگانے کا فیصلہ اس کیمپ میں جانے کی کئی نشانیوں میں سے ایک ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان کو اسٹریٹیجک معاملات میں بھی مغرب و امریکا کا ساتھ دینا پڑے گا، ''چین اور ایران کے تعلقات بہت خوش گوا ر ہیں۔ امریکا نے بھارت کو دھمکی دی ہے کہ وہ تہران کے ساتھ تجارت نہ کرے۔ پاکستان کو بھی امداد دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایران کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو ہم سے کہا جائے گا کہ ہم امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ چین تیس بلین ڈالرز سے زیادہ پہلے ہی لگا چکا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ہمارے ساتھ نرم رویہ تو نہیں رکھے گا اور اپنا قرضہ واپس لینے کے لیے کچھ بھی کرے گا جیسا کہ اس نے سری لنکا میں کیا۔
پاکستان اور امریکا سرد جنگ کے دوران قریبی اتحادی رہے ہیں۔ اسلام آباد نے امریکا دوستی میں بہت بڑے رسک بھی لیے۔ یوٹو کے طیارے کا کیس اس رسک کی ایک مثال ہے۔ لیکن پاکستان میں کئی تجزیہ نگار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ واشنگٹن قابلِ بھروسہ نہیں ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں شک اور بد اعتمادی غالب رہی اور امریکا نے ہمیں دوستی کا صلا نہیں دیا۔ ''یوٹو کے وجہ سے ہم مشکل میں آئے۔ افغان جہاد کے دوران ہم نے امریکا کا ساتھ دیا لیکن جواب میں ہمیں پینسٹھ کی جنگ میں ہتھیاروں پر پابندی ملی اور بعد میں کیری لوگر اور پریسلر ترمیم۔ تو امریکا پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ چین ہمارا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان چین کو چھوڑنے نہیں جارہا، ''لیکن اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو بہت بڑی غلطی ہو گی کیونکہ چین ریل اور روڈ کے ذریعے ہمیں وسطی ایشیا اور روس سے ملا رہا ہے۔ جس سے خطے میں پاکستان کی اہمیت اور بڑھ جائے گا۔ ہم جس طرح چین پر بھروسہ کرتے ہیں ویسا بھروسہ امریکا پر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم چین کو چھوڑتے ہیں تو امریکا کچھ عرصے تک ہمیں ساتھ رکھے گا بعد میں ہم اس سے بھیک مانگ رہے ہوں گے۔‘‘