1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کر دی گئی

7 اکتوبر 2024

وفاقی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر ملک کو لاحق امن و سلامتی کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور بعض رہنماؤں نے حکومت کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔

منظور پشتون
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد قائم ہونے والی اس تنظیم اور اس کے موجودہ رہنما منظور پشتین پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تنقید کرتے رہے ہیںتصویر: Mohammad Usman/DW

پاکستان کی حکومت نے امن و سلامتی کے لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے اتوار کے روز پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی عائد کر دی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق پی ٹی ایم کو سن 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 بی کے تحت "غیر قانونی" قرار دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی ایم نے ملک میں امن عامہ اور سلامتی کے لیے ایک "اہم خطرہ" پیدا کیا ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد قائم ہونے والی اس تنظیم اور اس کے موجودہ رہنما منظور پشتین پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تنقید کرتے رہے ہیں۔

پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والے منظور پشتین پھر گرفتار

حکومتی ادارے اس تحریک پر بدامنی پھیلانے اور غیر ملکی ایجنسیوں کی ایماء پر کام کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں، تاہم پی ٹی ایم کے رہنما ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

نئی جماعت کا افغانستان میں تبدیلی سے تعلق نہیں، محسن داوڑ

پابندی کے فیصلے پر تنقید

پابندی کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب تنظیم نے 11 اکتوبر کے روز پی ٹی ایم کے زیر اہتمام ایک بڑے پشتون قومی جرگہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں صوبہ خیبر پختونخوا میں سیکورٹی ایجنسیوں نے پی ٹی ایم کے کیمپوں پر چھاپوں کی کارروائیاں کیں، جس کی وجہ سے ان پر شدید نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔

منظور پشتین اپنے تین ساتھیوں سمیت گرفتار

گزشتہ ہفتے خیبر قبائلی ضلع میں پولیس نے متعدد چھاپوں کے دوران پی ٹی ایم کے ایک کیمپ کو آگ لگا دی تھی، جو 11 اکتوبر کو ہونے والے جرگے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے بھی ملاقات کی تھی اور انہیں بھی پشتون قومی جرگے میں شرکت کی دعوت دی تھیتصویر: Mohammad Usman/DW

پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبردار ادارے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم "حقوق پر مبنی ایک مومنٹ ہے، جس نے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا اور ہمیشہ اپنے مقصد کی وکالت کے لیے آئین کے فریم ورک کا استعمال کیا ہے۔ یہ انتہائی قسم کا فیصلہ نہ تو شفاف تھا اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔"

یہاں آ کر دیکھیں ہر طرف پی ٹی ایم نظر آئے گی، منظور پشتین

سابق ایم این اے محسن داوڑ جو کہ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ بنانے سے پہلے پی ٹی ایم کا حصہ تھے، انہوں نے بھی اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا کہ اس پابندی کے فیصلے سے، "لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ ریاست پرامن جدوجہد میں یقین نہیں رکھتی۔"

''مذاکرات سے پہلے اعتماد کی بحالی ضروری ہے‘‘

ایکس پر ایک پیغام میں اے این پی کے سابق رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ "پرامن پشتون کانفرنس سے کچھ دن قبل تحریک پر پابندی لگانا، مظلوم عوام کے خلاف ایک عام نوآبادیاتی عمل ہے۔"

عوامی ورکرز پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ پابندی کا یہ فیصلہ جنگ زدہ پختون عوام کو صرف "مخالف اور الگ کرنے" اور انتہائی دائیں بازو کی عسکریت پسندی کو پنپنے کے لیے جگہ فراہم کرے گا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے بھی ملاقات کی تھی اور انہیں بھی پشتون قومی جرگے میں شرکت کی دعوت دی تھی۔

واضح رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی بنیاد مئی سن 2014 میں رکھی گئی تھی اور اس وقت اس کا نام محسود تحفظ موومنٹ تھا۔ تاہم چار برس بعد جنوری 2018 میں اس کا نام تبدیل کرکے پشتون تحفظ موومنٹ رکھا گیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ ایک مقامی نوجوان رہنما منظور پشتین ہیں۔ انہوں نے پابندی کے حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا، تاہم پہلے انہوں نے کہا تھا کہ جرگے کے منتظمین کے خلاف ریاستی جبر جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرگے سے تعلق رکھنے والے تقریباﹰ دو سو کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب

04:19

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں