پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے پہلے صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ پنجاب بھر سے ان کی جماعت کے ایک ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اشتہار
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تقریباﹰ تمام اضلاع میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ انٹیلیجنس رپورٹوں کے مطابق پولیس پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اپنے گھروں سے ''فرار‘‘ ہو چکے ہیں اور کسی ممکنہ آزمائش سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے موبائل فون بھی بند کر رکھے ہیں۔
پنجاب میں اگلے سات روز کے لیے اجتماعات پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی گئی ہے۔ پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صرف لاہور میں ڈیڑھ سو کے قریب پی ٹی آئی ورکرز اب تک گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کارکنان کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے ان کے گھروں میں داخل ہو کر چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے اور بغیر وارنٹ کے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ دوسری طرف حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے خونی لانگ مارچ کا عندیہ دینے اور اسلحہ بردار جتھوں کی اسلام آباد کی طرف یلغار کے حوالے سے خفیہ اداروں کی رپورٹس ملنے کے بعد قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں موٹر ویز کے انٹرچینجز کو بند کیا جا رہا ہے۔ جی ٹی روڈ پر بھی کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ ادھر لاہور میں آنے والے راستے تو ٹریفک کے لیے کھلے ہیں لیکن اسلام آباد جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔
شہر کے کئی بس اسٹینڈز بند کر دئیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ مسافروں کی ٹولیاں پریشانی کے عالم میں موجود ہیں۔ موٹروے کے قریبی علاقوں میں لاہور کی ٹریفک پولیس گاڑیوں کو باہر بھیج رہی ہے۔ اسلام آباد پہنچنے کی متمنی ناہید نامی ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لڑائی عمران خان اور حکومت کی ہے ہمیں کیوں خوار کیا جا رہا ہے۔‘‘ شہر کے اندر چلنے والی میٹرو بس سروس بھی ایم اے او کالج سے شاہدرہ تک کے لیے بند کر دی گئی ہے۔ شہروں میں پولیس کا فلیگ مارچ جاری ہے جبکہ اہم عمارتوں پر بھی پولیس کے مسلح اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔
انصاف لائیئرز فورم کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے ممکنہ تشدد اور گرفتاریوں کے حوالے سے انسپکٹڑ جنرل پولیس اور چیف سیکریٹری پنجاب سے جواب طلب کر لیا ہے۔
پاکستان: عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے خلاف مظاہرے
01:28
لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں گزشتہ رات پولیس چھاپے کے دوران مبینبہ طور پر پی ٹی آئی کے ایک کارکن کی طرف سے چلائی جانے والی ایک گولی کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے مقتول پولیس اہلکار کمال احمد کی نماز جنازہ کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جارحانہ پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔ پولیس نے مقتول کمال احمد کے قتل کے الزام میں مقدمہ درج کرکے پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور ایک حساس ادارے کے سابق افسر ساجد اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایک شہری مدثر اعظم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سڑکوں پر پی ٹی آئی کے کارکن تو موجود نہیں لیکن سوشل میڈیا پر ان کے کارکن محاذ سنبھالے ہوئے ہیں، دوسری طرف کسی خفیہ مقام پر موجود پی ٹی آئی کے کئی رہنما اپنے اپنے ویڈیو بیانات میں مزاحمتی تحریک موجودہ حکومت کے خاتمے تک جاری رکھنے کے دعوے کر رہے ہیں۔‘‘
پاکستانی صحافی بے نظیر شاہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنا ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے ۔ بہتر ہوتا اگر حکومت اور پی ٹی آئی مل بیٹھ کر اس احتجاج کے پرامن انعقاد کے لیے کوئی مفاہمت کر لیتے۔ لیکن ان کے بقول لاہور میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت اور اسلحہ جمع کرنے کی خفیہ اداروں کی مبینہ رپورٹس کے بعد حکومت کے پاس بھی آپشنز کم رہ گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں بے نظیر شاہ کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔ ''وہ ہمدردی حاصل کرکے حکومت کے خلاف ایک انتقامی کارروائی کا بیانیہ پیش کرنے لگ گئے ہیں۔‘‘ دوسری طرف یہ حکومت کمزور ہے اور اس نے ابھی مشکل فیصلے بھی کرنے ہیں اس لیے پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اس حکومت کو اور کمزور کیا جائے تاکہ اسٹیبلشمنٹ مجبور ہو کر الیکشن کی طرف آسکے۔