1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: پنجاب ميں بلدیاتی انتخابات کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی نئی صف بندی

تنویر شہزاد، لاہور4 ستمبر 2013

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حزب اختلاف کی چار بڑی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کے مسئلے پر حکمران جماعت مسلم لیگ نواز گروپ کے خلاف مشترکہ جد و جہد کا اعلان کیا ہے۔

تصویر: AP

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حزب اختلاف کی چار بڑی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کے مسئلے پر حکمران جماعت مسلم لیگ نواز گروپ کے خلاف مشترکہ جد و جہد کا اعلان کیا ہے، جس سے پہلے ہی سے مختلف مسائل میں گھری حکومت کی مشکلات میں مزيد اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم گروپ نے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کے خلاف ’سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘ کے ذریعے مل کر حصہ لینے کا اعلان کر ديا ہے۔ لاہور میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو کا کہنا تھا، ’’ان چاروں جماعتوں نے نئے بلدیاتی نظام کو مل کر عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا مزيد کہنا تھا کہ يہ فیصلہ ایک ابتدائی قدم ہے اور بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں کی اس مفاہمت کو دوسرے مسائل تک بھی وسعت دی جائے گی۔ منظور وٹو کے بقول اپوزیشن جماعتیں حکمران جماعت کو آئندہ بلدياتی انتخابات ميں مشکل وقت سے دوچار کريں گی۔

انہوں نے مزيد کہا، ’’ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے تین دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی اداروں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں۔ وزیر اعلی پنجاب کے پاس منتخب بلدیاتی چیئرمینوں کو ہٹانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور پنجاب حکومت مختلف محکموں کو بلدیاتی اداروں کے دائرہ اختیار سے نکال کر ان کی آزادانہ اتھارٹیز قائم نہ کرے۔‘‘ منظور وٹو کا خیال ہے کہ پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام کو عدالت میں چیلنج کرنے سے انتخابات ملتوی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

پاکستان مسلم ليگ نواز گروپ کے سربراہ وزير اعظم نواز شريفتصویر: Reuters

پاکستان کی چاروں صوبائی حکومتیں سپریم کورٹ کے حکم پر اس سال کے آخر تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے ایک ماہر اور سول سوسائٹی فورم برائے مقامی طرز حکومت کے سربراہ سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا بھر میں اچھی حکمرانی کے لیے مقامی حکومتوں کا کردار اہم تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی نظر میں حکومتوں کو بلدیاتی اداروں کے نظام کی بجائے مقامی حکومتوں کے نظام کو متعارف کروانا چاہیے۔ سلمان عابد کہتے ہیں کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے اپنے نئے بلدیاتی نظام پیش کر دیے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت آج کل اپنے بلدیاتی نظام کو حتمی شکل دے رہی ہے جبکہ بلوچستان میں اس حوالے سے ذرا تاخیر دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے بقول اب تک سامنے آنے والے سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی نظاموں ميں آئین کے آرٹیکل ایک سو چالیس اے کو سامنے نہیں رکھا گیا۔ عابد کے مطابق آئین کی یہ شق صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات دیں لیکن صوبائی حکومتیں ان اختیارات کا بڑا حصہ اپنے یا بیوروکریسی کے پاس رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کی رائے میں پنجاب میں غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرانے سے جوڑ توڑ اور برادری کی سیاست کو فروغ حاصل ہو گا لیکن اس سے سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر مضبوط نہیں ہو سکیں گی۔

ساڑھے پانچ سالوں تک لاہور کے داتا گنج بخش ٹاون کے چیئرمین کے طور کر خدمات سر انجام دینے والے طارق ثنا باجوہ نے بتایا کہ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کا نیا نظام سن 2001 کے نظام سے بہت مختلف ہے، ان کے نزدیک اس سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی نہیں ہو سکے گی۔

پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز احمد چوہدری نے بتایا کہ پنجاب میں غیر آئینی بلدیاتی نظام کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسمبلی کے اندر اور باہر مشترکہ احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ پنجاب حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی تحریک انصاف خود کیسا نظام لا رہی ہے، اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ ‍ان کی جماعت خیبر پختونخوا میں ایک مثالی بلدیاتی نظام متعارف کرانے جا رہی ہے، جس میں عوام کو اقتدار میں شمولیت کا حقیقی معنوں میں احساس ہو گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں