پاکستان: پنجاب میں سرکاری لائیبریریوں کی بحالی کی کوششیں
7 اکتوبر 2013پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح صوبہ پنجاب بھی اپنی خوبصورت لائیبریریوں کی وجہ سے خصوصی شہرت کا حامل ہوا کرتا تھا، اٹھارہ سو بہتر میں قائم ہونے والی پنجاب یونیوسٹی اورینٹل کالج لائیبریری، پنجاب پبلک لائیبریری اور نواب آف بہاولپور کی لائیبریری سمیت اس صوبے میں بے شمار سرکاری اور نجی کتب خانے موجود تھے، اس کے علاوہ موبائل لائیبریریاں اور گلیوں اور محلوں میں قائم آنہ لایبریریاں بھی فروغ علم میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں، بدقسمتی سے اب صورتحال بہت بدل چکی ہے۔
شاہدہ ھاشمی نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ اسے سرکاری لائیبریری میں جانا پسند نہیں ہے کیونکہ وہاں نہ تو عملہ صحیح طرح سے رہنمائی کرنے کو تیار ہوتا ہے اور نہ ہی مطلوبہ کتابیں ملتی ہیں، ان کے خیال میں کتب خانوں کا بوسیدہ ماحول انہیں بلکل پسند نہیں ہے۔
پنجاب میں آثار قدیمہ اور کتب خانوں کے محکمے کے سیکرٹری اوریا مقبول جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب میں ایک تو پچھلی کئی دہائیوں سے سرکاری کتب خانے قائم ہی نہیں کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف پہلے سے موجود سرکاری کتب خانوں کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے،" اب تو لوگوں کی لائیبریری جانے کی عادت ہی ختم ہو گئی ہے، آپ باغ جناح کو ہی دیکھ لیں یہاں لوگ سیر کرنے، پھولوں کو دیکھنے اور میل ملاقات کرنے تو آتے ہیں لیکن اس پارک میں موجود پاکستان کی ایک بہت ہی خوبصورت قائداعظم لائیبریری میں کوئی نہیں آتا۔"
" اب ہم سرکاری کتب خانوں کو ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں ہمیں امید ہے کہ اس طرح لوگ کتب خانوں میں آنا شروع ہوں گے۔"
اوریا کے بقول پاکستان غالبا واحد ملک ہے جہاں لائیبریریوں کے حوالے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے،ءہم اب اس سلسلے میں قانون سازی بھی کر رہے ہیں، پاکستان میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بھی لائبریریاں قائم ہیں، ماضی میں سرکاری لائبریریاں مختلف محکموں میں شامل کی جاتی رہی ہیں، اس لیےانہیں ایک نیٹ ورک میں نہیں لایا جا سکا تھا۔
اوریا مقبول جان کے مطابق اب صوبے بھر میں موجود ایک سو بہتر میونسپل لائبریریوں کی حالت بہتر بنا کر انہیں دوبارہ قابل عمل بنانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کے بقول دور دراز کے علاقوں میں موجود ان لائیبریریوں میں پندرھویں اور سولھویں صدی کی نایاب کتابیں بھی موجود ہیں، " ہم نے ایک ہزار پارکوں کو منتخب کیا ہے جہاں پر ہم نئے کتب خانے بنانا چاہتے ہیں، اگر ایک پارک میں جھیل اور جھولا بنایا جا سکتا ہے تو لائیبریری کیوں نہیں بنائی جا سکتی؟"
اوریا کہتے ہیں انٹرنیٹ کی ترقی کے باوجود اگر ہیری پوٹر کتاب کا پہلا ایڈیشن تیس لاکھ کی تعداد میں ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب آج بھی اہم ہے، ان کے بقول کتابیں اور کتب خانے عالمی ورثہ ہوتے ہیں ، ترقی یافتہ ملکوں کو نئے کتب خانوں کی تعمیر میں غریب ملکوں کی مدد کرنی چاہیے، اس سے دہشت گردی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ قتل بیمار ہاتھ نہیں بیمار ذہن والا انسان کرتا ہے اور بیمار ذہن کا علاج اچھی کتابیں ہی کر سکتی ہیں۔
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن پبنجاب کے صدر ڈاکٹر محمد رمضان کہ پاکستان میں سرکاری کتب خانوں کی حالت اچھی نہیں ہے، البتہ نجی شعبے میں کئی اچھے کتب خانے موجود ہیں، ان کے بقول پاکستان میں الیکٹرانک کتب خانوں کا رجحان بھی فروغ پا رہا ہے، لیکن جنوبی پنجاب، اندرون سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقے کمپوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے علم کے ان خزانوں سے ابھی تک محروم ہیں۔ ڈاکٹر رمضان کے بقول نصاب تعلیم اس طرح سے مرتب کیا جانا چاہیے کہ جو طلبہ کو رٹہ لگانے کی بجائے لائیبریری کے استعمال پر مجبور کرے۔
لاہور میں موجود آغا خان یونیورسٹی کے سسٹم لائیبریرین اشرف شریف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کی اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی لائیبریریاں وسائل رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو مارکیٹ کرنے میں ناکام رہی ہیں، اگر ہم قارئین کو انٹرنیٹ کے ذریعے لائیبریری کی سہوتوں سے استفادے کا موقعہ فراہم کر دیں اور اسے گھر بیٹھے معلوم ہو جائے کہ اس کتب خانے میں کیا کیا مواد موجود ہے تو وہ کتابوں کی طرف ضرور آئیں گے۔