پاکستان، پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکار قتل
16 اگست 2022ایک مقامی پولیس افسر قدرت اللہ نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ دونوں پولیس اہلکار صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں گھر گھر ویکسینیشن مہم کے دوران ہلاک ہوئے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر سوار تھے اور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
پیر کے روز صوبائی حکومت نے پانچ سال کی عمر تک کے دس لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان ایک سال تک پولیو فری ملک رہا لیکن گزشتہ چند ماہ کے اندر اندر صوبہ خیبرپختونخوا میں پولیو کے 14 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں اب بھی وقفے وقفے سے پولیو کے کیس سامنے آتے رہتے ہیں تاہم ایسے کیسز میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سن 2014ء میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 306 ریکارڈ کی گئی تھی۔
پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی صورتحال پاکستان جیسی ہی ہے۔ دوسری جانب حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ کے سیوریج پانی میں بھی پولیو کی نشاندہی ہوئی تھی۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں جہادی تنظیموں سے منسک شدت پسند اکثر طبی حکام کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ابھی تک ایسے کارروائیوں میں درجنوں اہلکاروں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ایسی شدت پسند تنظیموں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ پولیو ٹیموں کے اہلکار حکومت کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور پولیو کے قطروں کا اصل مقصد مسلمان بچوں میں تولیدگی کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔
شدت پسندوں کی یہ نام نہاد منطق اور سازشی نظریات بالکل غلط اور بے بنیاد ہیں لیکن اسی کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں اینٹی پولیو ٹیموں کے بہت سے ارکان کی جان چلی جاتی ہے۔
القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے دوران پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو ورکر کا روپ دھارا تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی سے کو فراہم کی جانے والی معلومات اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا پتا لگانے میں کلیدی ثابت ہوئی تھیں۔ اس واقعے نے بھی پاکستان میں پولیو مہم کو زبردست دھچکا پہنچایا تھا۔ کچھ مذہبی رہنماؤں کے مطابق بھی پولیو کے قطرے مغربی ایجینڈے کا حصہ ہیں۔
حکومت پاکستان اور بین الاقوامی فلاحی اداروں کی جانب سے بھی ایسے جھوٹے مفروضات کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
ا ا / ر ب (ڈی پی اے، اے ایف پی)