1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، پہلی بار خواتین کا گروپ کے ٹو سر کرنے کے مشن پر

29 جون 2024

اس مہم کے ایک منتظم نے بتایا ہے کہ اس گروپ میں چار اطالوی اور چار ہی پاکستانی خواتین شامل ہیں۔ ان کوہ پیماؤں میں شامل سمینہ بیگ کے مطابق "یہ ایک تاریخی کارنامہ ہوگا۔"

پاکستان کے شمال میں واقع کے ٹو کی اونچائی 8,611 میٹر ہے اور اس پر کوہ پیمائی کو دشوار ترین تصور کیا جاتا ہے
پاکستان کے شمال میں واقع کے ٹو کی اونچائی 8,611 میٹر ہے اور اس پر کوہ پیمائی کو دشوار ترین تصور کیا جاتا ہےتصویر: SALTORO_SUMMIT_HANDOUT/dpa/picture alliance

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صرف خواتین کوہ پیماؤں پر مشتمل ایک گروپ نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

اس مہم کے ایک منتظم سرباز خان نے بتایا ہے کہ اس گروپ میں چار اطالوی اور چار ہی پاکستانی خواتین شامل ہیں۔

علاوہ ازین سیاحت کے محکمے سے منسلک مقامی حکومت کے ترجمان راحت بیگ نے بتایا کہ چھ خواتین پر مشتمل ایک اور گروپ پیر کو کے ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کرے گا۔

اس حوالے سے پاکستان الپائن کلب کے ترجمان کرار حیدری کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے کہ صرف خواتین کا ایک گروپ، جس کے قیادت بھی خواتین ہی کر رہی ہیں، اس چوٹی کو سر کرنے نکلا ہے جسے "کلر ماؤٹن"، یعنی قاتل پہاڑ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

پچھلے سال لی گئی کے ٹو کی ایک تصویرتصویر: Joe Stenson/AFP/Getty Images

پاکستان کے شمال میں واقع کے ٹو کی اونچائی 8,611 میٹر ہے اور اس پر کوہ پیمائی کو دشوار ترین تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو سر کرنے کی مہمات کے دوران متعدد  کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں۔

سرباز خان کے مطابق کوہ پیمائی کرنے والے خواتین کے دونوں گروپ تین ہفتوں سے ایک ماہ کے عرصے کے دوران چوٹی پر پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم اس کا دارومدار موسمی حالات پر بھی ہو گا۔

اس میں سے ایک گروپ میں سمینہ بیگ بھی شامل ہیں، جو اس سے پہلے بھی کے ٹو، ایورسٹ اور کئی اور چوٹیاں سر کر چکی ہیں۔ اپنی نئی مہم کے حوالے سے انہوں نے مقام ٹی وی چینل جیو نیوز پر گفتگو کے دوران کہا، "مجھے اس گروپ کا حصہ ہونے پر خوشی ہے۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہوگا۔"

(ڈی پی اے) م ا ⁄ ع س

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں