پاکستان:پہلی ڈیجیٹل مردم شماری، بے قاعدگیاں درست ہونےکی امید
28 فروری 2023دو بچوں کے والد محمد ثاقب لاہور میں اپنے دفتر میں لیپ ٹاپ پر اپنے خاندان کی تفصیلات ٹائپ کرتے ہوئے کافی پرجوش دکھائی دے رہے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی آبادی والا پاکستان پہلی مرتبہ ڈیجیٹل طریقے سے مردم شماری کر رہا ہے۔
38 سالہ ثاقب مسکراتے ہوئے پورٹل کا Submit بٹن دباتے ہوئے کہتے ہیں، "میری شیرخوار بیٹی کا بھی اندراج ہو گیا۔" اس پورٹل کا افتتاح 20 فروری کو ہوا تھا اور یہ اپنا اندراج خود کرنے کے لیے تین مارچ تک کھلا رہے گا۔
مردم شماری کا باضابطہ آغاز گوکہ یکم مارچ کو ہو گا تاہم مخصوص پورٹل شروع ہونے کے بعد چند دنوں کے اندر چالیس لاکھ اندراجات ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد اہلکار یکم مارچ سے ٹیبلیٹ اور موبائل استعمال کرتے ہوئے گھر گھر جاکر لوگوں کی تفصیلات یکجا کریں گے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اس سے مردم شماری کے عمل کو زیادہ درست، شفاف اور قابل اعتماد بنایا جاسکے گا۔
ڈیجیٹل مردم شماری: کیا آبادی کا شمار درست طور پر ہو سکے گا؟
امریکہ سے لے کر اسٹونیا تک، دنیا بھر کے ممالک کام میں تیزی لانے، درستگی کو بہتر بنانے اور لاگت کو کم کرنے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن طریقے سے مردم شماری کر رہے ہیں۔
پاکستان میں پارلیمان کی نشستوں کے تعین کے علاوہ اسکولوں اور ہسپتالوں جیسی بنیادی سہولیات کے لیے مالی امداد آبادی کے اعداد و شمار کے لحاظ سے طے کیے جاتے ہیں۔ ماضی میں ہونے والی مردم شماری کے دوران بعض مقامات پر غلط گنتی اور بعض گروپوں کو شامل نہیں کیے جانے کے الزامات لگائے گئے تھے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ نئے ڈیجیٹل طریقہ کارکو ہر ایک کی رسائی کے لیے حتی الامکان آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ماضی میں جن لوگوں کو مثلاً ٹرانس جینڈر افراد اور نسلی اقلیتوں کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا تھا انہیں بھی شامل کیا جاسکے۔
درستگی
کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماہر معاشیات و مردم شماری عاصم بشیر خان کہتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے تھے کہ کراچی کے بعض گنجان آبادی والی علاقوں میں سن 2017 کی مردم شماری میں کوئی آبادی درج نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا، "چونکہ ان لوگوں کو شمار ہی نہیں کیا گیا تھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں تاہم ان کی قانونی حیثیت یا مستقل پتہ پران کے شناختی کارڈ جاری کیے گئے تھے، اس کی وجہ سے وہاں کم گنتی ہوئی جہاں انہوں نے وسائل کا استعمال کیا اور جہاں انہوں نے وسائل کا استعمال نہیں کیا وہاں ضرورت سے زیادہ رپورٹنگ کی گئی۔"
بعض سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سن 2017 کی آخری مردم شماری میں پہلی مرتبہ ٹرانس جینڈر افراد کی گنتی کی گئی تھی، جس میں تقریبا ً20 کروڑ 80 لاکھ کی آبادی والے ملک میں صرف 10ہزار 418 خواجہ سراوں کی نشاندہی کی گئی تھی، بعد میں ان کی تعداد 21000 سے زیادہ بتائی گئی۔
’خواجہ سراؤں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے‘
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ بلیو وینز کے بانی قمر نسیم کا کہنا تھا، "خواجہ سراوں نے ان اعداد و شمار کو مسترد کر دیا ہے۔ معذور افراد کی بھی درست طریقے سے مردم شماری نہیں کی گئی۔"
حکام کا کہنا ہے کہ نئے ڈیجیٹل طریقہ کار سے غلطیوں کی نشاندہی کرنا اور اور انہیں درست کرنا آسان ہوگا۔
پاکستان: ایک کروڑ سے زائد نئے ووٹر، مرد خواتین سے کہیں زیادہ
مردم شماری کی نگرانی کرنے والے ادارے کے سربراہ اور وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا کہ، ''ڈیجیٹل مردم شماری شفافیت کو یقینی بنائے گی اور مردم شماری کے انعقاد اور نگرانی میں صوبوں کی شمولیت سے قابل اعتماد نتائج کی راہ ہموار ہوگی۔"
انہوں نے بتایا،" ایک ماہ تک سبز جیکٹس پہنے ہوئے ایک لاکھ 26 ہزار اہلکار محفوظ ٹیبلٹس کے ذریعے پاکستان بھر میں ہر شخص کی گنتی کریں گے، چاہے وہ سرحدی علاقوں میں ہو یا اندرونی علاقوں میں۔"
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) کے ترجمان محمد سرور گوندل نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے فوائد میں قابل اعتماد اعداد و شمار، ریئل ٹائم مانیٹرنگ اور دور دراج علاقوں کی مکمل کوریج شامل ہے۔
مردم شماری کے عمل کی قیادت کرنے والے گوندل نے مزید کہا، "پچھلی مردم شماری میں درپیش مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمارے پاس 24 گھنٹے شکایتوں کے ازالے کا انتظام موجود ہے۔"
شیعہ اقلیت اور مردم شماری عملے کو نشانہ بنایا: جماعت الاحرار
پی بی ایس کے سربراہ نعیم الظفر نے کہا کہ صوبوں کو دیگر اشاریوں کے علاوہ صنف، روزگار اور نقل مکانی کے متعلق الگ الگ معلومات خود بخود مل جائیں گی۔
انہوں نے کہا، "یہ سماجی و اقتصادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کے لیے ایک موثر ذریعہ ہوگا کیونکہ یہ رسائی اور غربت کی تصویر کو واضح طور پر ظاہر کرے گا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہوگی، جس سے بے گھر، عارضی مزدوروں اور خانہ بدوشوں سمیت بہت سے لوگوں کو مدد ملے گی۔"
شمولیتی
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کو زیادہ سے زیادہ قابل رسائی اور آسان بنایا جانا چاہئے تاکہ پسماندہ گروہوں کو شامل کیا جاسکے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل حارث خالق نے کہا، "ڈیجیٹلائزیشن اس عمل کو زیادہ شفاف بناتی ہے، لہذا اس سے مزید مسائل یا اس طرح کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ 2017 کی مردم شماری کے بعد دیکھا گیا تھا۔"
انہوں نے کہا کہ "سیاسی، مذہبی، نسلی یا صنفی اقلیتوں اور معذور افراد کی جانب سے کم گنتی کے خدشات کو دور کیا جانا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کواس عمل کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔"
بلیو وینز کے بانی قمر نسیم نے کہا کہ مردم شماری شمولیتی ہونی چاہیے۔ جب تک سبھی لوگوں کی اچھی طرح گنتی نہیں کی جاتی، کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی۔ سروس فراہم کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس معذور افراد اور ٹرانس جینڈر کے بارے میں کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار نہیں ہیں۔ قوم پرست اور نسلی جماعتوں کے ارکان بھی اپنی کم نمائندگی کے بارے میں فکر مند ہیں۔
مردم شماری کا آغاز، سروے فارم میں ’ٹرانس جینڈر کا کالم غائب‘
سندھی سیاست دان نثار احمد کھوڑو نے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا، "دیہی علاقوں میں بچے زیادہ تر گھر پر پیدا ہوتے ہیں اور لوگ ان کی رجسٹریشن کو ضروری نہیں سمجھتے ۔۔۔۔۔۔ اگر ہماری گنتی صحیح طریقے سے کی جائے تو ہم قومی فنڈز میں اپنا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔"
محمد سرور گوندل کا کہنا تھا، "ملک میں رہنے والے ہر شخص کو کسی بھی حیثیت سے قطع نظر ایک ایسے گھرانے کے طورپر شمار کیا جائے گا جہاں وہ کم از کم چھ ماہ سے رہ رہا ہے یا چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے سے وہاں رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔"
ج ا/ ص ز (روئٹرز)