1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

پاکستان چھوڑنے کے بعد افغان مہاجرین کا 'کوئی ٹھکانہ نہیں'

17 نومبر 2023

پاکستان سے بے دخل کیے گئے مہاجرین کو افغانستان میں گھر ڈھونڈنے میں دشواری ہو رہی ہے اور یہ ڈر بھی ہے کہ انہیں واپس جا کر روزگار تلاش کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع طورخم کی سرحد اس وقت پاکستان سے ملک بدر کیے جانے والے افغان مہاجرین کا عارضی ٹھکانہ بنی ہوئی۔
طورخم سرحد پر افغان مہاجرین کے لیے لگائے گئے وارضی ضیموں کا ایک منظرتصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع طورخم کی سرحد اس وقت پاکستان سے ملک بدر کیے جانے والے افغان مہاجرین کا عارضی ٹھکانہ بنی ہوئی۔ وہاں چٹانی پہاڑوں کے دامن میں نیلے خیموں کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے، جن میں افغان مہاجرین تپتی گرمی میں دن اور ٹھٹھرتی سرد راتیں گزارتے ہیں۔

سرحد پر موجود حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کے مہاجرین کو ملک چھوڑنے کے احکامات کے بعد سے اب تک کم از کم دو لاکھ دس ہزار مہاجرین طورخم کی سرحد پار کر کہ افغانستان جا چکے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جنہوں نے اگر اپنی پوری زندگی نہیں تو کئی دہائیاں افغانستان سے دور گزاری ہیں۔

افغانستان جانے سے قبل ان مہاجرین کو مدد کے طور پر15,000 افغانی، جو کہ افغانستان کی مقامی کرنسی ہے، دیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ رقم ایک ماہ سے زیادہ کسی خاندان کی کفالت کے لیے ناکافی ہے۔ 

'ہمارے پاس وہاں کوئی گھر نہیں'

ان میں سے اکثر مہاجرین کے لیے افغانستان میں اب کچھ نہیں بچا ہے۔ طورخم کی سرحد پر ایک عارضی کیمپ میں مقیم ایسے ہی ایک افغان مہاجر شیر آغا ہیں، جو پاکستان میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کر رہے تھے۔

پاکستان سے ملک بدری کے بعد افغان مہاجرین کی حالت زار

02:20

This browser does not support the video element.

شیر آغا اپنے نو بچوں کے ساتھ افغانستان کے صوبے قندوز جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے، "ہمارا وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس نہ ہی وہاں کوئی گھر ہے، نہ زمین اور نہ ہی کام۔"

شیر آٰغا نے پانچ سال کی عمر میں افغانستان چھوڑا تھا۔ اب جب کہ ان کی عمر 43 سال ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں افغانستان کو کوئی یاد نہیں ۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "میرا وہاں کوئی رشتے دار نہیں ہے اور میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کون سے ملک جا رہے ہیں۔"

'کام نہیں ملا تو رہنا مشکل ہوجائے گا'

طورخم کی سرحد پر ہی ایک اور خیمے میں اپنے 10 بچوں اور شوہر کے ساتھ 40 سالہ امینہ بھی رہ رہی ہیں۔ ان کا وہاں سے افغانستان کے شہر جلال آباد جانے کا ارادہ ہے، جہاں وہ کہتی ہیں ان کے "کئی بھائی" ہیں۔

طورخم سرھد پر لی گئی اس تصویر میں افغان مہاجرین کو ایک مہاجر کیمپ میں ان کی رجسٹریشن کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

امینہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے  جلال آباد میں اپنے رشتے داروں سے ایک کرائے کا گھر ڈھونڈنے کی درخواست کی تھی لیکن ان کو بتایا گیا کہ وہاں کوئی گھر کرائے پر دستیاب نہیں ہے۔

پاکستان میں امینہ کے بیٹے گھر چلانے کے لیے سبزی بیچتے اور رکشہ چلاتے تھے۔ انہیں ڈر ہے کہ اقتصادی بحران کے شکار افغانستان میں جہاں لوگوں کو بیروزگاری کا سامنا ہے، وہاں شاید ان کے بیٹوں کو ذریعہ معاش کے زیادہ مواقع نہ ملیں ۔

وہ کہتی ہے کہ اگر ان کے بیٹوں ک کام نہیں ملا، تو ان کا افغانستان میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔

'ہمیں ڈر ہے ہم بھوکے رہیں گے'

طورخم پر ایک اور خیمے میں 16 افراد پر مشتمل گل پری کا خاندان بھی رہ رہا ہے، جن کے پاس رضائیاں نہیں ہیں انہیں مجبورا گتے کے ڈبوں پر سونا پر رہا ہے۔

چھتیس سالہ گل پری کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان پانچ دنوں میں قندوز کی طرف سفر کی شروعات کرنے اور ایک ایسے ملک میں نئی زندگی بنانے جا رہا ہے، جسے انہوں نے آخری بار چالیس سال پہلے دیکھا تھا۔+

طورخم سرحد پر افغان مہاجر کیمپ کا ایک منظرتصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کا خاندان کچرا جمع کرنے کا کام کرتا تھا اور گو کہ وہاں ان کی زندگی مشکل تھی، لیکن افغانستان میں تو "ہمارے لیے کچھ نہیں رکھا"۔

انہوں نے مزید کہا، "ہمیں ڈر ہے وہاں ہم بھوکے رہیں گے۔ لیکن اگر ہمیں وہاں کام مل جاتا ہے تو سب ٹھیک ہوگا۔ پھر ہم اپنے وطن میں خوش ہوں گے۔ پاکستان میں تو ہمیں ہراساں کیا جا رہا تھا۔"

'صفر سے زندگی کا آغاز'

پاکستان چھوڑنے والے ایک اور افغان مہاجر امان اللہ اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان کے صوبے لغمان پہنچ چکے ہیں۔ لیکن وہاں بھی انہیں عارضی طور پر بنائے گئے ایک کیمپ میں رہنا پڑ رہا ہے اور افغانستان میں ان کا فی الحال اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔

جنہوں نے افغانستان دیکھا ہی نہیں وہ افغان مہاجرین واپس کیسے جائیں؟

04:26

This browser does not support the video element.

امان اللہ کی عمر اس وقت  43 سال ہے، جن میں سے 35 انہوں نے پاکستان میں گزارے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیمپ میں ان کی بیوی اور چھ بچوں کے لیے رہنا کافی مشکل ہو رہا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہاں کوئی بیت الخلا نہیں ہے اور بالخصوص خواتین کو دشواری کا سامنا ہے۔ امان اللہ کے بقول کیمپ میں موجود خواتین کو رفع حاجت کے لیے حفاظت کے خیال سے گروپ میں جانا پڑتا ہے اور رات ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس کیمپ میں بجلی کی فراہمی کا بھی مسئلہ ہے۔ امان اللہ کہتے ہیں، "اگر ہمیں یہاں پانچ دن، ایک مہینے یا ایک سال مزید رکنا پڑتا ہے تو بھی صحیح ہے، لیکن ہمیں کام اور ایک (مستقل) گھر کی ضرورت ہے۔ ہم یہاں صفر سے زندگی شروع کر رہے ہیں۔"

م ا/ ش ر (اے ایف پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں