1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان چیمپئنز کرکٹ لیگ کا انعقاد

4 جون 2012

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک پسماندہ علاقے لانڈی کورنگی میں پاکستان چیمپئنز کرکٹ لیگ کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکت کرنیوالی چالیس ٹیموں میں چار غیر ملکی بھی شامل تھیں۔

تصویر: DW

تین کروڑ روپے کی لاگت کے اس ٹورنامنٹ میں کورنگی کے باسیوں نے دو ہفتے تک کئی سٹار کرکٹرز کو ڈے نائٹ میچز میں ایکشن میں دیکھا۔ یہ ٹورنامنٹ پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے اشتراک سے منعقد کرایا۔ راشد لطیف نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ٹورنامنٹ کا مقصد نچلی سطح پر کلب کرکٹ کو فروغ دینا تھا، جس میں بے پناہ کامیابی ملی۔ راشد لطیف کے مطابق ٹیلی وژن پر میچز نشر ہونے کی وجہ سے اب ایک عام کلب کرکٹر کو بھی اس کے علاقے میں پہچان ملی ہے۔

پاکستان چیمپئنز لیگ کا انعقاد کراچی میں ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب شہر سیاسی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں ہے۔ راشد لطیف کے مطابق وہ اس ٹورنامنٹ کے ذریعے دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ کراچی کی حقیقی شبیہ کیسی ہے۔ راشد کا کہنا تھا کہ کراچی میں خراب حالات کی وجہ سے ایک کمیونٹی کا دوسری کمیونٹی کی طرف جانا مشکل ہوجاتا ہے مگر مختلف علاقوں کے لوگوں نے زبان سے قطع نظر اپنے کرکٹ سے لگاؤ کی وجہ سے گراونڈ پر آکر اس ٹورنامنٹ کو کامیاب بنایا ہے۔

راشد لطیف نے بتایا کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی ٹیمیں بھی کراچی آکر ٹورنامنٹ کھیلنے پر رضا مند تھیں مگر وسائل کی کمی آڑے آئےتصویر: DW

راشد لطیف نے بتایا، ’’بنگلہ دیش اور سری لنکا کی ٹیمیں بھی کراچی آکر ٹورنامنٹ کھیلنے پر رضا مند تھیں مگر وسائل کی کمی آڑے آئے تاہم افغانستان اور ہانگ کانگ کے آنے سے ٹورنامنٹ کی رنگینی میں اضافہ ہوا۔‘‘

راشد کے مطابق، ’’پی سی بی کے کچھ تحفظات تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم ان کے مقابلے کوئی ایونٹ کرا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا باکل نہ تھا بلکہ ہم تو پی سی بی کو مستقبل میں ساتھ لےکرچلنا چاہتے ہیں۔‘‘

ہانگ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان فاروق سعید نے پاکستان چیمپئنز لیگ میں اپنی ٹیم کی شرکت کو ایک خوشگوار تجربہ قرار دیا اور کہا، ’’پہلی بار ہانگ کانگ کی ٹیم کو نائٹ کرکٹ کھیلنے کو ملی۔ پاکستان میں اب بھی اچھا ماحول اوراچھے لوگ موجود ہیں اور بیرونی دنیا کو یہ چیز سمجھنی چاہیے۔‘‘

میوزک اور کرکٹ کی رنگینیاں دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں تقریباﹰ بیس ہزار پرجوش تماشائی موجود تھےتصویر: DW

اس ٹورنامنٹ کا سب سے دلچسپ پہلو افغان سرحد کے قریب واقع امریکی ڈرون حملوں کی زد میں آئے پاکستانی علاقے فاٹا کی ٹیم کا کراچی آکر کھیلنا اورفائنل کے لیے کوالیفائی کر جانا تھا۔ اس بابت فاٹا کی ٹیم کے کپتان تیمور آفریدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کی ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل تھی، ’’ہمارا علاقہ جنگ زدہ ہے مگر فاٹا سے دن بدن ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے اور ہمارے کھلاڑیوں کو یہاں آکر ان کی محنت کا صلہ مل رہا ہے۔‘‘

غور طلب بات یہ ہے کہ کورنگی کے، جس راشد لطیف کرکٹ اکیڈمی اسٹیڈیم میں فائنل سمیت اہم میچوں کا برقی روشنیوں میں انعقاد کیا گیا، ماضی میں وہاں متحارب سیاسی تنظیموں میں دشمنی کی بھینٹ چڑھ جانے والوں کی بے گور وکفن لاشیں پائی جاتی تھیں۔ سن 1992ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں جب کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن کیا گیا تواس وقت یہاں بوری بند لاشین کا ملنا معمول بن گیا تھا۔ راشد لطیف کا کہنا تھا کہ اس مقتل کو کرکٹ کا گہوارہ بنانے میں کافی مشکلات پیش آئیں۔ راشد کے مطابق بھٹائی رینجرز یہاں پر بارہ برس تک رہے اور اس وقت یہ عالم تھا کہ لوگوں کو جنازے کے بغیر ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ مگر پھر سابق سٹی ناظم مصطفےٰ کمال نے انہیں یہاں کرکٹ اکیڈمی کی تعمیر کی اجازت دی، ’’شروع میں یہ جگہ بہت سخت تھی۔ مگرمیرا یقین تھا کہ یہاں کھیل ہونے سے اور لوگوں کی آمد ورفت سے ہی خون دھلے گا۔ اس علاقے کے لوگوں نے مجھ سے بہت تعاون کیا اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ ایک پر رونق گراؤنڈ بن چکا ہے، جہاں ہم مستقبل میں مزید ٹورنامنٹس کرائیں گے۔‘‘

فائنل میں النور جم خانہ نے کامیابی حاصل کی، جس میں وہاب ریاض اور فواد عالم جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ فائنل کے موقع پر میوزک اور کرکٹ کی رنگینیاں دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں تقریباﹰ بیس ہزار پرجوش تماشائی موجود تھے۔

ماضی میں کورنگی سے ساجد علی اور تسلیم عارف جیسے وہ کرکٹرز جنم لے چکے ہیں۔ جو کبھی پاکستان کرکٹ کے ماتھے کا جھومر تھے اور اب پاکستان چیمپئنز لیگ کے پر امن انعقاد کے بعد اس بستی سے کئی نئے ستاروں کے اُبھرنے کا امکان ہے۔

رپورٹ: طارق سعید، کراچی

ادارت: امتیاز احمد

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں