1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ڈرون حملوں میں ’وقفہ‘، چھ ہفتے سے

20 دسمبر 2011

پاکستان میں دفاعی کمیٹی کے سربراہ جاوید اشرف قاضی نے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے روک رکھے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جاوید اشرف قاضی کا کہنا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ نے ڈرون حملے گزشتہ ماہ پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے حملوں کے تناظر میں روکے ہیں، تاکہ اسلام آباد کے ساتھ پہلے سے کشیدہ تعلقات ’مزید خراب‘ نہ ہوں۔

انہوں نے منگل کو ایک بیان میں اس یقین کا اظہار کیا کہ اس وقت یہ حملے علاقے میں کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کی موجودگی کی مصدقہ رپورٹ پر ہی شروع ہو سکتے ہیں۔

امریکہ پاکستان کے ان قبائلی علاقوں کو خطرناک ترین خطہ قرار دیتا ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج پر حملوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کے منصوبے اسی علاقے سے بنتے ہیں۔

نیٹو نے چھبیس نومبر کو پاکستانی فوج کی سرحدی چوکیوں پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں چوبیس فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت سے قبائلی علاقوں میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ اے پی کے مطابق یہ بات ایسے حملوں کا ریکارڈ رکھنے والی ویب سائٹ دا لونگ جرنل نے بتائی ہے۔

اس ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد گروہ القاعدہ اور طالبان کے انتہا پسندوں کے خلاف ڈرون حملے دو ہزار چار میں شروع ہوئے تھے۔ تاہم حالیہ وقفے کا عرصہ اس وقت سے اب تک سامنے آنے والا طویل ترین ہے، جسے تینتیس دِن بیت چکے ہیں۔

پاکستان نے نیٹو کا سپلائی رُوٹ تاحال بحال نہیں کیاتصویر: dapd

نیٹو کی جانب سے گزشتہ ماہ کے حملوں کے باعث پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید کشیدہ ہوئے۔ دراصل رواں برس مئی میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکی فورسز نے ایک خفیہ آپریشن کے دوران پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ہلاک کر دیا تھا، جس کے وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں پہلے سے ہی تلخی چلی آ رہی تھی۔

چھبیس نومبر کے حملوں کے بعد پاکستان نے نیٹو کا سپلائی رُوٹ بھی بند کر دیا تھا، جو تاحال بند ہے۔ تاہم نیٹو نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ پاکستانی فوجی افسروں پاک افغان سرحد پر واقع کوآرڈینیشن سینٹرز پر لوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ نیٹو نے اس پیش رفت کو تعلقات میں بہتری کی علامت قرار دیا ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں