پاکستان: ڈیپ فیکس، خواتین سیاستدانوں کے خلاف ایک ہتھیار
3 دسمبر 2024ناقص میڈیا خواندگی کے شکار ملک پاکستان جیسے قدامت پسند اور پدر سری معاشرے میں جیسے جیسے مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال مرکزی دھارے میں بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے ڈیپ فیکس کے زریعے خواتین سیاستدانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر ان سے سیاسی انتقام لینے اور انہیں سیاست سے دور کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان: فیک نیوز کون بنا رہا ہے، کون چلا رہا ہے
یہ رجحان اس وقت کئی سرکردہ خواتین سیاستدانوں کے لیے بڑے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ خاص طور سے اس لیے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کی عزت و تکریم کو خاندان اور معاشرے کے ناموس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہر سال سینکڑوں خواتین قیاس آرائیوں پر مبنی بدنامیوں کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں اور خود اپنے ہی خاندان یا برادری کے ہاتھوں ''عزت کے نام پر قتل‘‘ کر دی جاتی ہیں۔
ڈیپ فیکس ہیں کیا؟
حقیقی آڈیوز، ویڈیوز اور تصاویر کو مصنوعی ذہانت کے زریعے غلط اور تبدیل شدہ انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ وہ قائل کر دینے والا سچ لگے۔ 240 ملین کی آبادی پر مشتمل اس ملک میں سستے 4G موبائل انٹرنیٹ کی وجہ سے انٹرنیٹ کے استعمال میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کے انتخابات میں ڈیپ فیک کا بڑھتا خطرہ
ایک مانیٹرنگ سائٹ ''ڈیٹا رپورٹل‘‘ کے مطابق، رواں برس یعنی 2024 ء کے جنوری کے ماہ میں تقریباً 110 ملین پاکستانی آن لائن سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ یہ تعداد 2023 ء کے آغاز کے مقابلے میں 24 ملین زیادہ تھی۔ اس سال کے انتخابات میں ڈیپ فیکس کا استعمال ڈیجیٹل جرائم کی بحث کا مرکزی موضوع رہا۔
عظمیٰ بخاری کے ساتھ کیا ہوا؟
پاکستانی سیاستدان، مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری کی ایک جعلی ویڈیو کے اپ لوڈ کیے جانے کے سبب ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ، انہیں بدنام کیا گیا۔ یہ ویڈیو جنسی نوعیت کی ڈیپ فیک ویڈیو کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔
عظمیٰ بخاری کا تعلق پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہے اور وہ اس صوبے کی وزیر اطلاعات ہیں۔ 48 سالہ عظمیٰ بخاری اپنے خلاف ہونے والی اس سازش کے بارے میں کہتی ہیں،'' اس فیک ویڈیو کے بارے میں جب مجھے پتا چلا تو میں بالکل بکھر گئی۔‘‘
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے آڈیو اور ویڈیو کس طرح تیار کی جاتی ہیں؟
عظمیٰ بخاری باقاعدگی سے ٹیلی وژن پر نظر آنے والی سیاستدان رہی ہیں۔ تاہم اس جعلی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد وہ اچانک میڈیا سے غائب ہو گئیں۔ اُس وقت سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کرنے والی اس ویڈیو میں عظمیٰ کے چہرے کو ایک بھارتی اداکار کے جسم سے اس طرح جوڑا گیا کہ وہ ویڈیو جنسی نوعیت کی نا زیبا ویڈیو بن گئی۔‘‘ ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے عظمیٰ نے لاہور میں اپنے گھر میں اے ایف پی کو بتایا، ''یہ بہت مشکل تھا، میں افسردہ تھی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''میری بیٹی نے مجھے گلے لگایا اور کہا، ماما، آپ کو اس سے لڑنا ہو گا۔‘‘
ابتدائی طور پر محتاط رہتے ہوئے پیچھے ہٹنے کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنا کیس درج کروایا تاکہ ڈیپ فیک پھیلانے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں عدالت جاتی ہوں تو مجھے لوگوں کو بار بار یاد دلانا پڑتا ہے کہ میرے بارے میں گردش کرنے والی ویڈیو جعلی ہے۔
عظمیٰ بخاری نے اپنی کردار کشی کرنے والی ویڈیو کو ''فحش‘‘ قرار دیا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں شادی سے پہلے جنسی تعلقات قابل سزا جرم ہیں، ڈیپ فیکس کے استعمال سے مردوں کے ساتھ گلے ملنے یا غیر مناسب سماجی میل جول کی ویڈیو خاص طور سے خواتین کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔
یورپی یونین کی سیاسی جماعتوں نے ڈس انفارمیشن مخالف معاہدے پر دستخط کر دیے
اکتوبر میں، اے ایف پی نے علاقائی قانون ساز مینا مجید کی ایک جعلی ویڈیو کا جائزہ لیا تھا، جس میں وہ صوبہ بلوچستان کے مرد وزیراعلیٰ کو گلے لگاتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں۔ اس ویڈیو پرایک سوشل میڈیا کیپشن میں کہا گیا، ''بے شرمی کی کوئی حد نہیں، یہ بلوچ ثقافت کی توہین ہے۔‘‘
ایک غیر سرکاری تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ سے منسلک صدف خان کا کہنا ہے،'' جب ڈیپ فیکس پر مشتمل ایک ویڈیو کسی خاتون کو ہدف بناکر تیار کی جاتی اور جب یہ گردش کرتی ہے، تو اس کا مقصد اس خاتون کے غیر اخلاقی ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس کے گہرے منفی اثرات نا صرف اس متاثتہ خاتون کے تشخص پر پڑتے ہیں بلکہ اس کے پورے خاندان کی عزت و ناموس پر حرف آتا ہے۔‘‘
خواتین کی ایک لاکھ سے زائد ڈیپ فیک برہنہ تصاویر شئیر کی گئیں
ڈیپ فیکس کے خلاف قانون سازی
ڈیپ فیکس اب پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں غلط معلومات پر مشتمل مہم کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے۔ 2016ء میں عظمیٰ بخاری کی پارٹی مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے ''آن لائن جرائم کی روک تھام کے لیے‘‘ ایک قانون پاس کیا گیا تھا، جس میں کسی بھی فرد کی رضامندی کے بغیر اُس کی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کرنے کے خلاف ''سائبر اسٹاکنگ‘‘ سے متعلق دفعات شامل کی گئی تھیں۔
بخاری کا خیال ہے کہ اسے قانون کو مضبوط بنانے اور تفتیش کاروں کی ممکنہ مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمارے سائبر کرائم یونٹ کی استعداد کار میں اضافہ بہت اہم ہے۔‘‘ دوسری جانب ڈیجیٹل حقوق کے کارکن اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے اس طرح کی وسیع قانون سازی کے لیے حکومت پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
ڈیپ فیک پورنو گرافی: جنوبی کوریائی باشندے پریشان
یاد رہے کہ پاکستانی حکام نے رواں برس فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد یوٹیوب اور ٹِک ٹِک کو بلاک کر دیا تھا اور تب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پابندی عائد ہے۔ پاکستان کی ڈیجیٹل حقوق کی نامور کارکن نگہت داد کے بقول،''ان سائٹس کو بلاک کرنا دراصل حکومت کے لیے ان سنگین مسائل کے فوری حل سے زیادہ نہیں ۔‘‘
انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،'' یہ اُن دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو آپ کے اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘
ک م/ ش ر (اے ایف پی)