1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: کئی شہروں ميں حساس مقامات کی کڑی نگرانی

عاصم سليم16 جون 2014

وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے کئی شہروں ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے جبکہ کسی بھی ممکنہ ناخشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوج کو تیار رہنے کا حکم ديا گیا ہے۔

تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں دہشت گرد عناصر کے خلاف پہلے ہی آپریشن جاری ہے۔ گزشتہ روز بھی سہراب گوٹھ کے علاقے میں دو طالبان دہشت گرد مقامی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ایس ایس پی ملیر راؤ محمد انوار نے بتايا کہ مارے جانے والے دہشت گردوں نے پولیس اور رینجرز کے کئی اہلکاروں کو قتل کرنے کے علاوہ سہراب گوٹھ کے تھانے پر حملہ بھی کيا تھا اور اقوام متحدہ کے ايک اہلکار کی گاڑی پر حملہ کر کے اسے زخمی کیا تھا۔

دريں اثناء سندھ کی صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت ميں قرارداد منظور کر لی ہے۔ صوبائی حکومت نے حساس تنصیبات، غیر ملکی سفارتخانوں، سرکاری عمارات اور عوامی مقامات پر حفاظتی اقدامات انتہائی سخت کرنے کے احکامات جاری کر ديے ہیں۔ اس حوالے سے آج وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے ايک اعلی سطحی اجلاس بھی طلب کيا، جس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی بھی شریک ہوئے۔

کراچی کا بين الاقومی ايئر پورٹتصویر: picture-alliance/dpa

صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا ہے کہ دہشت گردی ملک کے لیے ایک ناسور ہے اور اس کے خاتمے کے لیے وہ وفاقی حکومت اور فوج کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

ماضی میں دہشت گردوں نے فوجی کارروائی کے خلاف رد عمل ظاہر کرنے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور اور صوبہ سندھ کے صدر مقام کراچی کو نشانہ بنایا تھا اور اس بار بھی خدشات یہی ہیں کہ دہشت گردوں کا ہدف یہی شہر ہو سکتے ہیں۔ پشاور اس لیے کہ وہاں دہشت گردوں کی رسائی قدرے آسان ہوگی جبکہ کراچی ایئر پورٹ حملے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ یہاں افغان اور ازبک سمیت دہشت گردوں کی اتنی تعداد موجود ہے کہ وہ بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ کراچی بھی دہشت گردوں کا ہدف ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں کی جانے والی ہر کارروائی کا ملکی معیشت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔

وفاقی حکومت کو بھی پشاور اور کراچی کے حساس ہونے کا احساس ہے لہذا آپریشن شروع ہوتے ہی ممکنہ جوابی حملوں کی روک تھام کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔

پشاور کے نواح ميں قبائلی علاقوں ميں فوج تعینات کر دی گئی ہے جبکہ شہر میں پولیس نے اضافی حفاظتی چوکیاں قائم کر لی ہیں۔ تمام بازاروں سمیت عوامی مقامات کو محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ بنوں میں تمام سرکاری تعلیمی ادارے فوری طور پر غیر معینہ مدت کے لیے بند کر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے بھی کیمپ قائم کر دیا گیا ہے۔ آئی ڈی پیز کی منتقلی کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کيا گیا ہے اور اس حوالے سے پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور سول انتظامیہ کے تعاون سے اقدامات کيے جا رہے ہیں۔

ملک کا مشرقی صوبہ پنجاب گزشتہ برسوں میں دہشت گردی کے حوالے سے قدرے پرسکون رہا ہے کیونکہ یہاں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور دیگر وارداتوں کا تناسب پشاور اور کراچی کے مقابلے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ تاہم اس کے باوجود پنجاب حکومت بھی دہشت گردی کے ممکنہ واقعات سے نمٹنے کے لیے سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف نے آج ہی کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان سے ملاقات کی ہے جبکہ صوبائی بیوروکریسی کو بھی حفاظتی انتظامات جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں