1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا آئینی و سیاسی بحران: ’بہتری کی کوئی امید نہیں‘

5 اپریل 2023

پاکستان میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں جاری سیاسی اور آئینی تنازعات کو مشاورت سے حل کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں تو ملک میں مارشل لا کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Pakistan Schwere Ausschreitungen bei Protesten gegen die Regierung
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پلڈاٹ (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جاری سیاسی لڑائی میں کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے: ''سیاسی جماعتیں اپنی ہار کو ملک کی ہار سے زیادہ اہم سمجھ رہی ہیں۔ اس لیے جب تک دو بڑے سیاسی فریق لڑ لڑ کر تھک نہیں جاتے یا ان میں سے کسی ایک کو مکمل شکست نہیں ہو جاتی تب تک ملکی کشیدگی میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ جس کے نتیجے میں سیاسی قوتیں فارغ بھی ہو سکتی ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں صوبائی انتخابات کے حوالے سے سامنے آنے والا  سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے  کیونکہ آئین اسمبلی توڑے جانے کی صورت میں نوے دنوں میں لازمی الیکشن کا تقاضا کرتا ہے لیکن ان کے نزدیک عدالت عظمی کی طرف سے الیکشن کی تاریخ دینا اور الیکشن شیڈول کی تفصیلات مانگنا حیران کن ہے: ''اس فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کو عدالت عظمی کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ ان کو الیکشن کرانے کے لیے پیسے مل گئے ہیں یا نہیں۔الیکشن کے بارے میں فیصلوں کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہی رہنا چاہیے لیکن اس صورتحال میں عدالت کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے آزاد اور خود مختار ادارے کی نگرانی کا تاثر پیدا ہوا ہے جو کہ اچھی بات نہیں ہے۔‘‘

ایک طرف پی ڈی ایم والے عمران خان کو اپنی راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف عمران خان اقتدار میں آ کر ان سب کو تختہ دار پر لٹکانے کا ارادہ رکھتے ہیں، امتیاز عالمتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

ایک اور سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس وقت پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے والے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ) 2023ء کی صدر مملکت سے منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے اس کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف حکومت کی طرف سے اپیل ہو گی جسے سپریم کورٹ کا بڑا بینچ سنے گا لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی اس نئے منظور شدہ ایکٹ کے خلاف بھی عدالت سے رجوع کر لیا جائے اور عدالت عظمٰی اسے کالعدم قرار دے دے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں آنے والے دنوں میں مزید پیچیدہ اور طویل قانونی لڑائی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ پنجاب کے انتخابات اس لیے اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ یہاں جو بھی جیتے گا اس کے لیے مرکز میں بھی حکومت بنانا بہت آ سان ہو جائے گا اس لیے پنجاب ہی اس وقت حقیقی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ان کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں کئی خلا موجود ہیں یہاں کوئی بھی چیف منسٹر بغیر کوئی وجہ بتائے اسمبلی توڑ سکتا ہے۔ اصولا ہونا تو یہ چاہیے کہ اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں 90 دنوں میں ہونے والے انتخابات اسمبلی کی بقیہ مدت کے لیے ہی ہونے چاہییں کیونکہ نیا ٹینور ملنے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

امتیاز عالم کا ماننا ہے کہ سیاسی معاملات کو عدالتی فیصلوں کے ساتھ حل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول عدالت عظمی کے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے سامنے آنے والے فیصلے سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے: ’’اب یا تو یہ الیکشن ہو ہی نہیں سکتا، یا اس میں دھاندلی کی کوشش ہو سکتی ہے یا اس کے نتائج نہیں مانے جائیں گے یا اسے ملتوی کروا دیا جائے گا اور اخری آپشن کے مطابق یہ انتخابات خونی لڑائی جھگڑوں کی نذر بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان

16:35

This browser does not support the video element.

امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ سوائے گنتی کے ان چند ججوں کے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا یا جنہوں نے ترازو کو ذمہ داری سے سنبھالا، پاکستانی عدلیہ کی زیادہ تر تاریخ اچھی نہیں رہی: ''یہاں افتخار چوہدری، ثاقب نثار اور جسٹس گلزار جیسے لوگ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی طرح کام کرتے رہے۔ وہ عدلیہ میں نا اہل لوگ لے کر آئے۔ افتخار چوہدری نے دھمکی دے کر انیسویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کے اختیارات عدلیہ کے اپنے ہاتھ میں دے دیے۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''اب عدلیہ اپنے اختیارات شیئر کرنے کو تیار نہیں ہے اور سینیئر جج کے فیصلے منٹوں میں ختم کیے جا رہے ہیں۔ کبھی ہمارے جج آئین کی لفظی ترجمے کی پیروی میں قانون کے مطابق فیصلہ سنا دیتے ہیں اور کبھی وہ آئین کی ایک شق کو دوسری کئی شقوں کے ساتھ ملا کر فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ ‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتو میں امتیاز عالم کا مزید کہنا تھا، ''اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار ہو گئی تو عدلیہ متحرک ہو گئی ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم والے عمران خان کو اپنی راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف عمران خان اقتدار میں آ کر ان سب کو تختہ دار پر لٹکانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے سول سوسائٹی کی جمہوریت پسند تنظیموں کی مدد سے عمران خان، اور بلوچ قوم پرست جماعتوں سمیت کئی سیاسی جماعتوں سے ملاقات کر کے انہیں اس بحران کے خاتمے کے لیے باہمی مذاکرات کرنے کی دعوت دی تھی لیکن پی ڈی ایم کے لیڈرز اس پر تیار نہیں ہوئے اور بات آگے نہیں بڑھ سکی۔‘‘

اس وقت پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے والے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ) 2023ء کی صدر مملکت سے منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے، احمد بلال محبوبتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

ساوتھ ایشین اسٹڈیز سنٹر پنجاب یونیورسٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تمام فریق کم سے کم ایجنڈے پر اتفاق کر لیں۔ ان کے خیال میں موجودہ حالات میں کسی بھی فریق کے لیے اپنے سو فی صد مطالبات منوانا ممکن نہیں ہے: ''عدالتوں کو بھی سخت فیصلے سنانے کی بجائے قابل قبول درمیانی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ان کے خیال میں اگر انتخابات مئی کی بجائے اگست ستمبر میں کروانے پر بات شروع کی جائے، ملکی مفادات کو سیاسی بیان بازی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے،  اعتماد سازی کے لیے سیاسی مقدمات کو ختم کر دیا جائے، فیک نیوز کے ذریعے کشیدگی بڑھانے والے پراپگنڈہ کے محاذ پر عارضی جنگ بندی ہو جائے، اداروں کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے اور بنیادی جمہوری قدروں کا احترام کیا جائے تو کسی مفاہمت پر پہنچنا ممکن ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر ریحانہ کا خیال ہے کہ عوامی حلقوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو سیاسی جماعتوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ الزامات اور جوابی الزامات سے ہٹ کر موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اپنے اپنے پروگرام کی تفصیلات سامنے لائیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں