پاکستان میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں جاری سیاسی اور آئینی تنازعات کو مشاورت سے حل کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں تو ملک میں مارشل لا کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پلڈاٹ (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جاری سیاسی لڑائی میں کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے: ''سیاسی جماعتیں اپنی ہار کو ملک کی ہار سے زیادہ اہم سمجھ رہی ہیں۔ اس لیے جب تک دو بڑے سیاسی فریق لڑ لڑ کر تھک نہیں جاتے یا ان میں سے کسی ایک کو مکمل شکست نہیں ہو جاتی تب تک ملکی کشیدگی میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ جس کے نتیجے میں سیاسی قوتیں فارغ بھی ہو سکتی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں صوبائی انتخابات کے حوالے سے سامنے آنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے کیونکہ آئین اسمبلی توڑے جانے کی صورت میں نوے دنوں میں لازمی الیکشن کا تقاضا کرتا ہے لیکن ان کے نزدیک عدالت عظمی کی طرف سے الیکشن کی تاریخ دینا اور الیکشن شیڈول کی تفصیلات مانگنا حیران کن ہے: ''اس فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کو عدالت عظمی کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ ان کو الیکشن کرانے کے لیے پیسے مل گئے ہیں یا نہیں۔الیکشن کے بارے میں فیصلوں کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہی رہنا چاہیے لیکن اس صورتحال میں عدالت کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے آزاد اور خود مختار ادارے کی نگرانی کا تاثر پیدا ہوا ہے جو کہ اچھی بات نہیں ہے۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس وقت پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے والے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ) 2023ء کی صدر مملکت سے منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے اس کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف حکومت کی طرف سے اپیل ہو گی جسے سپریم کورٹ کا بڑا بینچ سنے گا لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی اس نئے منظور شدہ ایکٹ کے خلاف بھی عدالت سے رجوع کر لیا جائے اور عدالت عظمٰی اسے کالعدم قرار دے دے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں آنے والے دنوں میں مزید پیچیدہ اور طویل قانونی لڑائی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ پنجاب کے انتخابات اس لیے اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ یہاں جو بھی جیتے گا اس کے لیے مرکز میں بھی حکومت بنانا بہت آ سان ہو جائے گا اس لیے پنجاب ہی اس وقت حقیقی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ان کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں کئی خلا موجود ہیں یہاں کوئی بھی چیف منسٹر بغیر کوئی وجہ بتائے اسمبلی توڑ سکتا ہے۔ اصولا ہونا تو یہ چاہیے کہ اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں 90 دنوں میں ہونے والے انتخابات اسمبلی کی بقیہ مدت کے لیے ہی ہونے چاہییں کیونکہ نیا ٹینور ملنے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
امتیاز عالم کا ماننا ہے کہ سیاسی معاملات کو عدالتی فیصلوں کے ساتھ حل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول عدالت عظمی کے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے سامنے آنے والے فیصلے سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے: ’’اب یا تو یہ الیکشن ہو ہی نہیں سکتا، یا اس میں دھاندلی کی کوشش ہو سکتی ہے یا اس کے نتائج نہیں مانے جائیں گے یا اسے ملتوی کروا دیا جائے گا اور اخری آپشن کے مطابق یہ انتخابات خونی لڑائی جھگڑوں کی نذر بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان
16:35
امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ سوائے گنتی کے ان چند ججوں کے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا یا جنہوں نے ترازو کو ذمہ داری سے سنبھالا، پاکستانی عدلیہ کی زیادہ تر تاریخ اچھی نہیں رہی: ''یہاں افتخار چوہدری، ثاقب نثار اور جسٹس گلزار جیسے لوگ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی طرح کام کرتے رہے۔ وہ عدلیہ میں نا اہل لوگ لے کر آئے۔ افتخار چوہدری نے دھمکی دے کر انیسویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کے اختیارات عدلیہ کے اپنے ہاتھ میں دے دیے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''اب عدلیہ اپنے اختیارات شیئر کرنے کو تیار نہیں ہے اور سینیئر جج کے فیصلے منٹوں میں ختم کیے جا رہے ہیں۔ کبھی ہمارے جج آئین کی لفظی ترجمے کی پیروی میں قانون کے مطابق فیصلہ سنا دیتے ہیں اور کبھی وہ آئین کی ایک شق کو دوسری کئی شقوں کے ساتھ ملا کر فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ ‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتو میں امتیاز عالم کا مزید کہنا تھا، ''اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار ہو گئی تو عدلیہ متحرک ہو گئی ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم والے عمران خان کو اپنی راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف عمران خان اقتدار میں آ کر ان سب کو تختہ دار پر لٹکانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے سول سوسائٹی کی جمہوریت پسند تنظیموں کی مدد سے عمران خان، اور بلوچ قوم پرست جماعتوں سمیت کئی سیاسی جماعتوں سے ملاقات کر کے انہیں اس بحران کے خاتمے کے لیے باہمی مذاکرات کرنے کی دعوت دی تھی لیکن پی ڈی ایم کے لیڈرز اس پر تیار نہیں ہوئے اور بات آگے نہیں بڑھ سکی۔‘‘
ساوتھ ایشین اسٹڈیز سنٹر پنجاب یونیورسٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تمام فریق کم سے کم ایجنڈے پر اتفاق کر لیں۔ ان کے خیال میں موجودہ حالات میں کسی بھی فریق کے لیے اپنے سو فی صد مطالبات منوانا ممکن نہیں ہے: ''عدالتوں کو بھی سخت فیصلے سنانے کی بجائے قابل قبول درمیانی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کے خیال میں اگر انتخابات مئی کی بجائے اگست ستمبر میں کروانے پر بات شروع کی جائے، ملکی مفادات کو سیاسی بیان بازی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، اعتماد سازی کے لیے سیاسی مقدمات کو ختم کر دیا جائے، فیک نیوز کے ذریعے کشیدگی بڑھانے والے پراپگنڈہ کے محاذ پر عارضی جنگ بندی ہو جائے، اداروں کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے اور بنیادی جمہوری قدروں کا احترام کیا جائے تو کسی مفاہمت پر پہنچنا ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
ڈاکٹر ریحانہ کا خیال ہے کہ عوامی حلقوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو سیاسی جماعتوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ الزامات اور جوابی الزامات سے ہٹ کر موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اپنے اپنے پروگرام کی تفصیلات سامنے لائیں۔