1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب

30 اگست 2022

امدادی اداروں کو دور دراز علاقوں میں بحالی کے کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارو مدد گار امداد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ سیلاب متاثرین کے لیے امداد کی اپیل کرے گا۔

Pakistan Überschwemmungen in weiten Teilen des Landes
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تیزی لائی جا رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وفاقی وزیر شیری رحمان کے مطابق پاکستان کا  ایک تہائی حصہ ڈوب چکا ہے۔ اب تک کم از کم  1,100  افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان: تباہ کن سیلاب کے دوران آئی ایم ایف کا ایک ارب سے زائد کا قرضہ دینے کا اعلان

جون میں شروع ہونے والی موسلا دھار بارشیں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں بدترین سیلاب  کا باعث بنیں۔ اب تک سیلاب دس لاکھ سے زائد گھروں کو مکمل طور پر تباہ یا نقصان پہنچا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ اور کئی لاکھ مویشی بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی اداے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ترجمان ادریس محسود کا کہنا ہے کہ سیلاب نے چاروں صوبوں میں تباہی مچائی ہے لیکن صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

خیبر پختونخواہ کے ضلع چارہ سدہ میں قائم ایک عارضی خیمہ گا میں موجود سیلاب متاثرینتصویر: Abdul Majeed/AFP

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''این ڈی ایم اے نے اپنے صوبائی دفاتر اور بین الاقوامی اداروں سے مل کر مون سون بارشوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پلان ترتیب دے رکھا تھا لیکن پھر غیر متوقع شدید بارشوں نے اُس سسٹم کو بری طرح متاثر کیا۔ آپ بارشوں کی شدت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ صوبہ سندھ کے بعض علاقوں میں جہاں مون سون سیزن میں اوسطاﹰ 50 سے 60 ملی لیٹر بارش ہوا کرتی تھی، وہاں 1700 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، کچھ ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں دیکھی گئی۔‘‘

سیلاب کی صورتحال نمٹنے کے لیے پیشگی تیاریوں کے بارے میں مزید وضاحت کرے ہوئے اس ترجمان کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم نے 16 سے 17 ایسی انتباہی ایڈوئزریاں جاری کی تھیں، جن میں متعلقہ صوبائی حکام کو کسی ممکنہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کا کہا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، '' ہماری تیاری تو تھی اسی لیے اگر آپ سیلابوں کی موجودہ صورتحال کا 2010 ء میں آنے والے سیلاب سے موازنہ کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ حالیہ سیلابوں کی شدت زیادہ ہونے کے باجود ان میں ہونے والا جانی نقصان پہلے کے مقابلے میں کم ہے۔ 2010 ء میں لگ بھگ دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

حکام اور خیراتی ادارے  33 ملین سے زائد متاثرہ افراد کو امداد کی فراہمی میں تیزی لانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہیں بعض ایسے علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے جن کا زمینی رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے کٹ چکا ہے۔

این ڈی ایم کے ترجمان کے مطابق سیلاب نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اضلاع راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور میانوالی میں بھی تباہی مچائی ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے متاثرہ ایک طالبہ رمشا بی بی نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہمارے پاس کھانا پکانے تک کی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘

این ڈی ایم کے ترجمان کا کہنا تھا،'' صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ میں حکام نے ہماری طرف سے بھجوائی گئی وارننگ کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جس کی وجہ سے وہاں جانی نقصان بہت کم رہا۔‘‘

نوشہرہ میں فنی تربیت کے ایک کالج کو 25 ہزار سیلاب متاثرین کے لیے عارضی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہاں شدید گرم موسم، خوراک کی کمی اور پینے کے صاف پانی تک رسائی میں رکاوٹوں نے پناہ گزینوں کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ نوشہرہ کے اس عارضی کیمپ میں پناہ لینے والے ایک 60 سالہ شخص ملنگ جان نے اے ایف پی کو بتایا، '' میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایک دن ایسے رہنا پڑے گا۔ ہم نے اپنی جنت کھو دی اور اب ایسے کسمپرسی میں پڑے ہیں۔‘‘

پاکستانی حکومت نے بین الاقوامی مدد کی اپیل کرتے ہوئے ملک میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ ترکی اور متحدہ عرب امارات پاکستان کو امدادی سامان مہیا کرنے والے پہلے ممالک میں شامل ہیں جبکہ کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان سمیت دیگر ممالک نے بھی امداد کا وعدہ کیا ہے۔

دریں اثنا اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی ہنگامی امداد کے لیے منگل کو 160 ملین ڈالر کی باضابطہ اپیل کرے گا۔ 

ش ر ⁄ ع ب (اے ایف پی)

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بین الاقوامی امداد پہنچنا شروع

01:38

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں